
یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ بھارت کے تابوت پر آخری کیل !
احساس نایاب شیموگہ کرناٹک
بھارت میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہندوراشٹر بنانے کے لئے بھارت کے تابوت پر لگنے والا آخری کیل ہوگا اور بھارت میں اسلامی وجود کے خاتمہ کی ناکام سازش ۔۔۔۔۔۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آر ایس ایس، بی جے پی کا مدعہ ہندوراشٹر ہوگا اور ہندوؤں کو خطرے میں بتاکر کر ہندوتوا کارڈس پھینکے جائیں گے، اور زمینی حالات کے تناسب سے کامیابی کے امکانات ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
بھاچپا کے پاس ہمیشہ سے حکم کے اِکے کی طرح ہندوتوا اور ہندوراشٹر ایک بہت بڑا ہتھیار رہا ہے جس سے وہ اپنے تمام غلط فیصلوں اور نااہلیو کے باوجود دس سالون سے اقتدار میں ہے،
2014 کے بعد 2019 کے الیکشن میں بی جے پی سرکار نے سنکلپ پتر کے نام سے ایک قرارداد پیش کیا، جس میں تین مدعوں کو لے کر ملک بھر میں کافی ہنگامہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
پہلا جموکشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانا
دوسرا بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر
اور تیسرا ملک بھر میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ۔۔۔۔۔۔۔۔
مودی سرکار نے اس کے علاوہ بھی کئی دعوے کئے تھے لیکن سارے محض جملہ بازی بن کر رہ گئے لیکن آرٹیکل 370 اور رام مندر پر بڑی ہی چالاکی کے ساتھ کام کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
5 اگست 2019 میں جموکشمیر کا جو اسپشیل اسٹیٹس تھا آرٹیکل 370 کے تحت اُس کو ختم کردیا گیا ۔۔۔۔۔۔ جس کو لے کر عالمی سطح پر مودی سرکار کی مذمت کی گئی، لیکن حکمران جماعت نے بڑے ہی شاطرانہ طریقے سے مسلم رہنماؤں ہی کے ذریعہ اس معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا، راتوں رات محمود مدنی کو جنیوا بھیج کر کشمیریوں کے زخموں پر اس قدر چالاکی کے ساتھ نمک مرچ لگایا گیا کہ اُن کی اذیت ناک چیخین انہیں کے اندر گھُٹ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا بڑا معاملہ ایودھیا کا تھا، جہان تاریخی بابری مسجد کی اراضی پر رام مندر کا جھوٹا دعوی 1980 سے چلا آرہا تھا اس کو بھی بی جے پی نے سیاسی طاقت و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے بڑے ہی شاطرانے طریقے سے 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کے ثابق جج رنجن گوگوئی کے ذریعہ رام مندر کے حق مین فیصلہ سنادیا ۔۔۔۔۔اس کھُلی ناانصافی والے فیصلے کے خلاف مسلمان کسی قسم کی مخالفت یا احتجاج کرتے کہ اس سے پہلے ہمارے ہی چند بزرگ رہنماؤں کو امن کے کبوتر بناکر مسلمانوں میں امن و بھائی چارگی برقرار رکھنے اور اس ظلم پر صبر کرنے کا اعلان ہوگیا ، اُس دن سے آج تک بیچارے مسلمان 9 نومبر کو سوشیل میڈیا پر سیاہ دن مناکر مسلمان ہونے کا حق ادا کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
خیر عنقریب 2024 کے لوک سبھا انتخابات ہیں اور اس بار بھارت کی عوام مہنگائی، بےروزگاری، کرپشن جیسے کئی مدعوں کو لے کر حکمران جماعت سے ناراض ہے، اس کے علاوہ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی سے بی جے پی بوکھلائی ہوئی ہے، تقریبا ہر ریاست میں بی جے پی بیزاری دیکھی جارہی ہے، ایسے میں مودی سرکار کے پاس ہندو ووٹرس کو خوش کرنے کے لئے یونیفارم سول کوڈ کا ہی ایک سہارا بچا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جس کے لئے بی جے پی اپنی پوری طاقت جھونک دے گی اور سام دام دنڈ بھید جیسے کئی حربے آزمائے گی ۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ہمیں "یونیفارم سیول کوڈ” یعنی ( یو سی سی ) کیا ہے یہ جاننا بیحد ضروری ہے ساتھ ہی یو سی سی لانے کے پیچھے بی جے پی کی گندی نیت بھی سمجھنی ہوگی ۔۔۔۔۔۔
یو سی سی یعنی "یونیفارم سول کوڈ” یعنی ایکساں سول کوڈ مطلب ” ایک ملک ایک قانون” ۔۔۔۔۔۔۔
بھارت میں صدیوں سے کئی مذاہب کو ماننے والے ہیں اور ہر ایک کا اپنا پرسنل لا موجود ہے یعنی اپنا مذہبی قانون جیسے مسلم کمیونٹی میں شریعہ قانون کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
مسلمان پیدائش سے لے کر ، عبادت نکاح ، وراثت اور مرنے تک کے کئی معاملات شریعہ قانون کے مطابق گزارتے ہیں ، اسی طرح عیسائی، ہندو، جین اور پارسی دھرم کو ماننے والے بھی اپنے اپنے مذہبی قوانین کے مطابق زندگیاں بسر کر رہے ہیں اور اسی کو بھارت کی خوبصورتی یہان کی گنگاجمنی تہذیب کہا جاتا ہے جو کہ دنیا کے آگے بھارت کو ایک خاص پہچان دلاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
بھارت میں اگر ایکسان سول کوڈ کا نفاذ ہوجاتا ہے تو سب سے پہلے ہندو مسلم کے بیچ ایک گہری کھائی کھینچ جائے گی ۔۔۔۔۔۔ اور ہندؤں کے آگے مسلمانوں کو غدار وطن بناکر پیش کیا جائے گا اور اگر اس صورتحال سے بچنے کے لئے مسلم رہنماؤں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا تو جانتے بوجھتے قوم مسلم کو غیراسلام عمل میں جھونکنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ یو سی سی نافذ ہوجاتا ہے تو
بھارت کے ہر شہری کو ایک ملک ایک قانون کے تحت زندگی گزارنی ہوگی یعنی اپنے مذہبی قوانین کو ترک کرکے ایکسان سول کوڈ کے تحت بنائے گئے قانون کو ہی فالو کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر اگر ایکسان سول کوڈ میں چار شادیاں، طلاق، خلعہ، بچوں کی تعداد ، چائلڈ اڈاپشن برقعہ،حجاب، مسجد ، مدرسہ و مذہبی تشہیر وغیرہ پر اگر کسی قسم کی پابندیاں لگتی ہیں یا اس میں ردوبدل کیا جاتا ہے تو بغیر چوں چاں کے مسلمانوں کو ماننا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔ اور بھارت کے ہر شہری کو حکومت کی طئے شدہ ضوابط پر باقاعدگی سے عمل کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے بھارت کے سول قوانین مین تجارت، جائیداد کی خرید و فروخت اور جرائم کو لے کر بلاتفریق مذہب و جنس سب کے لئے ایک ہی قانون ہے ایسے ہی ایکسان سول کوڈ کے نافذ ہونے پر دیگر پرسنل لاس کو ہٹاکر سب کے لئے ایک جیسا قانون بنایا جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور آسان مثال سے سمجھیں تو اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے ، جبکہ ہندو مذہب میں پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے ، اسلام میں بیوہ اور طلاق شدہ خاتون دوسرا نکاح کرسکتی ہے لیکن ہندو مذہب میں ودھوا عورت دوسری شادی نہیں کرسکتی ، ایکسان سول کوڈ کے تحت اگر ہندو اکثریت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندو لاس کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو مسلمانوں کو بھی وہی قانون فالو کرنے پڑیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے پہلا ہتھوڑا عدت، حلالہ، طلاق ، نکاح ، وراثت اور برقعہ حجاب پر چلے گا ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر کئی مسلم دانشوران کا ماننا ہے کہ ایکسان سول کوڈ کے نفاذ سے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ہندؤں کو بھی نقصان ہے ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ ساری باتیں محض خود کو دلاسے تسلیاں دینے تک صحیح ہیں
کیونکہ بھارت مین ہندو اکثریت میں ہیں تو ظاہر سی بات ہے اکثریتی رائے کو ہی ترجیح دی جائے گی ویسے بھی بی جے پی اکثریت کو ناراض کرنے کی حماقت ہرگز نہیں کرے گی ایسے میں ظاہر سی بات ہے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جائے گے ۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی جس ملک میں مسلم لڑکی کا ہندو لڑکے سے شادی کرنے پر گھر واپسی کہا جائے وہین ہندو لڑکی کے مسلم لڑکے سے نکاح کرنے کو لوجہاد کا نام دیا جائے وہان خیر کی امید یا خود کو دلاسے تسلیاں دینا بزدلی اور حماقت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ آخر کونسا ہندو یہ نہیں چاہے گا کہ بھارت ہندو راشٹر بن جائے ؟؟؟
2014 کے بعد سے جس طرح مسلمانوں کے خلاف مسلسل نفرت کا زہر اُگلا گیا ہے اور ہم وطن ہندو بھائیوں کو مسلمانوں کے نام سے بار بار خوفزدہ کیا گیا ہے یہ کہہ کر کہ ہندو خطرے میں ہے ۔۔۔۔۔ یا کبھی غزوئے ہند کو مرچ مصالحہ لگا کر من گھرت طریقے سے ہیش کیا جاتا ہے ، تو کبھی دنیا بھر میں 54 مسلم ممالک کو دکھاکر ہندو بھائی بہنوں کے دل و دماغ مین اپنے راشٹر اپنے وطن کی لالچ دلائی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ کبھی تقسیم ہند کا افسوسناک واقعہ مزید خوفناک بناکر دکھایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ 2002 گجرات اور ہاشم پورہ جیسے ناجانے کتنے ہی خوفناک حالات بھارت نے دیکھے ہیں، باوجود کشمیر برہمن اور کیرلااسٹوری جیسی جھوٹی و من گھرت کہانیوں سے مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کیا جارہا ہے ، ایسے مین ظاہر سی بات ہے بھارت کے ہندوؤں میں نوے فیصد آبادی ہندو راشٹر کی ہی خواہاں ہوگی، چاہے وہ اس کا اظہار کرے یا نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔
بی جے پی سیاست کے نام پر نفسیاتی کھیل کھیل رہی ہے اور کہین نہ کہیں وہ اس کھیل میں کامیاب بھی ہوتی نظر آرہی یے ۔۔۔۔۔۔۔
رہی بات 2023 کرناٹکا اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار کامیابی تو اس سے مسلمانوں کو زیادہ خوش فہم نہیں ہونا چاہئیے، کیونکہ یہاں پر جے ڈی ایس کے ووٹ کانگریس کے حصہ مین گئے ہیں باقی بی جے پی کا جو ہندو ووٹ بینک ہے وہ ابھی بھی برقرار ہے جو کسی صورت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
دراصل بھکت جیویوں کی سائکالوجی تھوڑی عجیب ہے یہ صاف پانی کی جگہ گاؤمُتر اور روٹی کی جگہ گوبر کھا کر بھی جی لیں گے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار یعنی آر ایس ایس سے اپنی وفاداری ضرور نبھائیں گے ۔۔۔۔۔۔
فی الحال 2024 میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے بی جے پی ایک زخمی جانور کی طرح جارحانہ انداز اپنا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ بالخصوص کرناٹک اور اُن ریاستوں میں جہان پر کانگریس سرکار ہے ۔۔۔۔۔۔
کانگریس کو گرانے، نااہل ثابت کرنے کے لئے بھاجپائی چنٹوؤں کو کسی بھی حد تک لے جایا جائے گا ۔۔۔۔۔
ایسے کئی حربہ استعمال کئے جائیں گے جو ایک عام انسان کی سوچ و گماں سے پرے ہے ۔۔۔۔۔۔
عین ممکن ہے جگہ جگہ فرقہ وارانہ دنگوں میں اضافہ ہو ، من گھرت لوجہاد کو مزید تول دیا جائے ، اس کے علاوہ بھی کئی ایسی چالین ہین جو بی جے پی پٹارے سے نکالی جاسکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
جسے بیان کرنا فی الوقت مناسب نہیں ، کیونکہ 24× 7 چارون جانب دجالی آنکھیں کھلی ہیں ، ہر جانب دجال کے پیروکار متحرک ہوچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور ان حالات میں خطرہ صرف دشمن سے ہی نہین بلکہ کئی آستین کے سانپوں سے بھی ہے جو ایک ایک کرکے باہر آئیں گے اور ان کا کردار بی جے پی سلپرسیل کا ہوگا اور یہی دنیاپرست سنگھی آلہ کار بن کر قوم مسلم کی قبریں کھودیں گے ۔۔۔۔۔
” ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو” ۔۔۔۔۔۔
فی الحال ایک ایک کر کئ دوموئے سانپ بلوں سے نکل چکے ہیں جن کے قول و عمل میں اس قدر تصادم ہے کہ وہ خود خود کی پہچان بھُلا چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن انشاءاللہ عنقریب ہر چہرہ بےنقاب ہوگا اور ہر ظالم کا انجام دنیا کے لئے عبرتناک ہوگا ۔۔۔۔۔۔
” حالات کے سہمے ہوئے لوگوں کو بتادو
حالات بدل جاتے ہیں ٹہرا نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔
خیر یہان پہ آپ کے لئے یہ جاننا بھی بیحد ضروری ہے کہ
جس ایکیسوین ودھی آیوگ نے دوہزار سولہ میں یہ کہا تھا کہ یونیفارم سول کوڈ کی فی الحال بھارت کو ضرورت نہیں ہے اسی بائسویں ودھی آیوگ نے عوام سے مشورہ مانگا ہے ۔۔۔۔۔
جی ہاں یونفارم سول کوڈ کو لے کر ویدھی آیوگ کی جانب سے آلریڈی سارا پروسیس شروع ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ویدھی آیوگ نے یونیفارم سول کوڈ کے لئے مذہبی تنظیموں و دیگر تنظیموں سے تیس دن مین آن لائن مشورہ مانگا ہے کیونکہ یہ طئے ہے کہ یو سی سی میں سب کے لئے قانون ایک جیسے ہوں گے اور سمودھان کے مطابق ہوں گے
ایسے میں یہ بھی طئے ہے کہ بہت سارے لوگوں کے اب تک کے بنے قوانین کو ختم کیا جائے گا یعنی انڈویجول پرسنل لاس کو ختم کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہان پر تیس جون کو ودھان سبھا میں پیش کئے جانے والے
یو سی سی کے پہلے ڈرافٹ کو لے کر بھی کئ باتیں سامنے آئی ہیں ۔۔۔۔۔۔ جس میں خواتین کو لے کر کچھ زیادہ ہی ہمدردی دکھائی جارہی ہے اور صنف نازک کو جس طرح سے سنہرے خواب دکھائے جارہے ہیں یون لگ رہا ہے عورتوں کا دجالی لشکر تیار کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر اس مسودے میں جو اہم باتیں ہیں ان میں خواتین کو برابری کے حقوق دئے جانے پر زیادہ زور دیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔
وراثت میں بیٹے اور بیٹی کو برابر کا حق ہوگا ۔۔۔۔۔۔
طلاق کو لے کر میاں بیوی کو برابر کا اختیار ہوگا ۔۔۔۔۔
ایک سے ذائد شادیوں پر پوری طرح سے روک لگایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
لڑکیوں کی شادی کی عمر مزید بڑھانے کے امکانات ہیں اور شادیوں کا باقاعدہ رجسٹریشن کروانا ہوگا ورنہ بغیر رجسٹریشن کے سرکاری سہولیات ختم کردی جائیں گی ۔۔۔۔۔۔
میان بیوی میں سے کسی ایک کی موت پر ملنے والے معاوضہ اور اولاد کو گود لینے یعنی بچہ کے ایڈاپشن کو لے کر بھی کئ باتیں بتائی گئی ہیں، اس کے علاوہ حلالہ اور عدت جیسے شرعی قوانین کو بھی ختم کرنے اور آبادی کم کرنے پر زور دیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔
ایک اور شرمناک بات یہ بھی ہے کہ اب لیونگ رلیشن شپ جیسی بےحیائی کو بھی کھُلے عام اعلی اعلان کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی اس نئے قانون کے مطابق جائز حلال طریقے سے ایک سے ذائد شادیان کرنا گناہ مانا جائے گا جبکہ لیونگ رلیشن شپ جیسے ناجائز رشتون کو پروان چڑھایا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔
اور ہمارے کھانے پینے سے لے کر پہناوے وغیرہ کو لے کر کئی پابندیان ہوں گی ۔۔۔۔۔۔
خیر ابھی ان سب کے درمیاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی سی اے اے ، این آر سی کی طرح مخالفت ہوگی ؟
مسلمانوں کی جانب سے اس کے خلاف کتنی آوازین اٹھائی جائیں گی ؟
کتنے احتجاج و مظاہرے کئے جائیں گے اور مخالفت کرنے پر کتنوں کو پاکستان بھیجا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔
یا پھر سے مسلم قیادت صبر و حکمت کا راگ الاپے گی ؟؟؟
ویسے افسوس اس کی بھی شروعات ہوچکی ہے ۔۔۔۔
جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم یکساں سول کوڈ کی مخالفت کریں گے لیکن سڑکوں پر نہیں آئیں گے” ۔۔۔۔۔۔ خیر بغیر سڑکوں پر آئے بند کمروں کی مخالفت رام مندر فیصلہ پر ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔۔۔۔۔
جبکہ شاہین اور کسان آندولن بھی ہمارے سامنے ہے ابھی فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ حالات کے خوف سے وہ کامپرمائس کرتے ہیں یا شریعت کے محافظ بنتے ہیں ؟؟؟
صف اول دشمن تیار کھڑا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ شریعت کے پاسدار کہاں ہیں ؟؟؟
چلتی بندوق کے ہم دبانہ پہ ہیں
ہم کو معلوم ہے ہم نشانہ پہ ہیں
رسم اہل وفا ہر ستم جھیلنا
اپنی تاریخ ہے موت سے کھیلنا
کج فہم لوگ ہم کو ڈرانے پہ ہیں
ہم کو معلوم ہے ہم نشانہ پہ ہیں ۔۔۔۔۔