مضامین و مقالات

کجریوال کھیل بگاڑنے پہنچے راجستھان

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

اسمبلی انتخابات نزدیک آتے ہی کجریوال راجستھان پہنچ گئے ۔ مدھیہ پردیش، چھتس گڑھ میں ان کی کوئی طاقت نہیں ہے، لیکن راجستھان میں وہ گزشتہ کئی ماہ سے زمینی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ تیار کرنے میں لگے ہیں ۔ انہوں نے سری گنگا نگر میں ریلی کر گجرات کی طرح مفت کی ریوڑیوں کا اعلان کیا ہے ۔ تین سو یونٹ بجلی مفت، ہر گاؤں میں محلہ کلینک وغیرہ ۔ وہ یہاں گجرات کی طرح ہی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی کو گجرات میں صرف پانچ سیٹیں جیتنے میں کامیابی ملی مگر اس نے کانگریس کا بڑا ووٹ شیئر اپنی طرف کھینچ لیا ۔ عآپ کو گجرات میں 12.9 فیصد ووٹ ملے لیکن کانگریس 17 سیٹوں پر سمٹ گئی ۔ عآپ بری طرح ہار کر کانگریس کا کھیل بگاڑ چکی ہے ۔ 27.3 فیصد ووٹ لینے کے باوجود بھی کانگریس کو آزادی کے بعد سب سے بڑی ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ۔ جبکہ کورونا میں حکومت کی بے پروائی، موربی حادثہ اور بی جے پی کارکنوں کی من مانی کی وجہ سے عوام میں بھاجپا کے خلاف شدید غصہ اور اینٹی ان کمبینسی تھی ۔ پھر بھی بی جے پی اپنی حکومت بچانے میں کامیاب ہو گئی ۔
اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں دہلی، پنجاب کو چھوڑ دیں تو عام آدمی پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم بن کر ابھری ہے ۔ وہ کانگریس کے کندھے پر سوار ہو کر ہی آگے بڑھی ہے ۔ بھلے ہی دہلی ہو یا پنجاب، دہلی میں تو اس نے کانگریس کا سوپڑا ہی صاف کر دیا ۔ اروند کجریوال کو معلوم ہے کہ کانگریس کی کمزوری ہی ان کی طاقت ہے ۔ دہلی کی طرح ہی پنجاب میں انہوں نے کانگریس سے ہی اقتدار چھینا ۔ حالانکہ وہاں کچھ حد تک ووٹوں کے بکھراؤ کا بھی انہیں فائدہ ملا ۔ کجریوال ایسی کسی جگہ نہیں جاتے جہاں ان کا سیدھا مقابلہ بی جے پی سے ہو ۔ ایک طرف وہ مرکز کے آرڈیننس کے خلاف کانگریس کی حمایت چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے کجریوال ملکارجن کھڑگے سے بھی مل چکے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف عآپ کے وزیر سوربھ بھارداج نے اپنے بیان میں کہا کہ کانگریس دہلی اور پنجاب کا میدان عام آدمی پارٹی کے لئے چھوڑ دے تو ان کی پارٹی مدھیہ پردیش، چھتس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کے خلاف الیکشن نہیں لڑے گی ۔ اس پر مزید بات ہوتی مگر جس طرح اروند کجریوال نے راجستھان کے سری گنگا نگر میں کانگریس کی دکھتی رگ کو خوب دبایا ۔ انہوں نے کہا کہ سچن پائلٹ کا رو رو کر برا حال ہے لیکن گہلوت کوئی کاروائی نہیں کر رہے ہیں ۔ کانگریس حکومت اور اشوک گہلوت پر جس طرح حملہ کیا اس سے لگتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں عآپ اور کانگریس کا ساتھ رہنا مشکل ہے ۔ حالانکہ نتیش کمار حزب اختلاف جماعتوں کو سمجھا رہے ہیں لیکن کوئی ایک رائے نہیں بن پا رہی ہے ۔
عام آدمی پارٹی کا شروع سے راجستھان میں فوکس رہا ہے ۔ لیکن ابھی تک وہ کوئی بڑا کرشمہ نہیں کر سکی ۔ 2018 کے اسمبلی الیکشن میں اس کا کھاتہ تک نہیں کھلا تھا ۔ زیادہ تر سیٹوں پر اس کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی ۔ کرناٹک میں بھی اس نے 208 امیدوار اتار ے تھے تاکہ بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکے ۔ لیکن کرناٹک کے عوام نے اسے فراموش کر دیا ۔ راجستھان میں عام آدمی پارٹی گجرات کی طرز پر الیکشن لڑنا چاہتی ہے ۔ وہاں اس نے بھارتیہ ٹرائبل پارٹی سے اتحاد کیا تھا ۔ پنجاب میں چار پارٹیاں میدان میں تھیں ۔ راجستھان کی صورتحال بھی کچھ اسی طرح کی ہے ۔ یہاں ناگور سے ممبر پارلیمنٹ ہنومان بینی وال کی نیشنل لوک تانترک پارٹی اپنا دم خم دکھانے کو تیار ہے ۔ جاٹ اکثریتی سیٹوں پر بینی وال اچھا مظاہرہ کر سکتے ہیں ۔ بھارتیہ ٹرائبل پارٹی راجستھان کے آدی واسی علاقوں میں موجود ہے ۔ کچھ انتخابی حلقوں میں بی ایس پی بھی جیت حاصل کر سکتی ہے ۔ 2018 کے الیکشن میں اسے 6 سیٹیں ملی تھیں ۔ بھیم آرمی کے چندر شیکھر راون یہاں کے دلت ووٹوں پر اپنی پکڑ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
کجریوال نے سری گنگا نگر کی ریلی میں سچن پائلٹ کا جس طرح ذکر کیا اس سے لگتا ہے کہ وہ پائلٹ جیسے کسی لیڈر کو اپنے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں ۔ جو فی الحال آسان نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا عام آدمی پارٹی راجستھان میں تیسرا مورچہ بنا کر الیکشن لڑے گی ۔ اگر ہنومان بینی وال اور بی ایس پی کے ساتھ عآپ کا اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ کانگریس اور بی جے پی کے لئے چیلنج کھڑا کر سکتی ہے ۔ پھر راجستھان کا مقابلہ بے حد دلچسپ ہو جائے گا ۔ کجریوال نے جان بوجھ کر سری گنگا نگر میں ریلی کی ہے ۔ کیونکہ سری گنگا نگر، ہنومان گڑھ سے پنجاب کی سرحد لگتی ہے ۔ یہ سکھ اکثریتی علاقہ ہے شاید اسی لئے انہوں نے اور بھگوت مان نے یہاں پنجاب سے ملتے جلتے مدے اٹھائے ۔ مان نے تو 95 فیصد تقریر بھی پنجابی میں کی ۔ کانگریس نے کجریوال کی ریلی پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں دیر نہیں لگائی ۔ کانگریس نے اروند کجریوال کے بنگلہ پر خرچ ہوئے پچاس کروڑ کا مدعا اٹھایا ۔ ساتھ ہی بد عنوانی کے الزام میں ستیندر جین اور منیش سسودیا کے جیل میں ہونے کی بات یاد دلائی ۔ واضح رہے عام آدمی پارٹی انا ہزارے کی کرپشن کے خلاف تحریک کے نتیجہ میں بنی تھی ۔ شراب گھوٹالے کے معاملہ میں خود کجریوال سے بھی پوچھ تاچھ کی جا چکی ہے ۔
کانگریس جانتی ہے کہ اگر عام آدمی پارٹی کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو پارٹی کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ کجریوال کانگریس کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانے سے نہیں چوکیں گے ۔ راجستھان میں بی جے پی کا کئی خیموں میں بٹے ہونا کانگریس کے لئے راحت کی بات ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ وسندرا راجے سندھیا سے لے کر مرزی وزیر گجیندر سنگھ شیکھاوت، ستیش پونیہ، اشونی ویشنو سمیت ایک درجن لیڈران وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں ہیں ۔ لوک سبھا اسپیکر اوم برلا بھی پردے کے پیچھے سے کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ بی جے پی لیڈران نریندرمودی کے چہرے پر الیکشن لڑنے بات کہہ رہے ہیں ۔ بہر حال راجستھان اسمبلی انتخاب میں جو وقت بچا ہے اس میں یہاں کا سیاسی پارہ دھیرے دھیرے چڑھ رہا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں کانگریس کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے ۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات، ناراضگی کو دور کرنے کے لئے کیا قدم اٹھاتی ہے ۔ سچن پائلٹ جاٹ اکثریتی 40 سیٹوں پر کانگریس کے لئے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں ۔ کرناٹک الیکشن نے یہ صاف کر دیا ہے کہ اسے پارٹی کے سبھی کارکنوں کو ساتھ لے کر اپنے ایجنڈے پر چناؤ لڑنا ہوگا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button