بہارتازہ ترین خبریں

مجھ کو طرح طرح سے وہی لوٹتا رہا: میں دیوتا سمجھ کے جسے پوجتا رہا یاور مظفرپوری کے شعری مجموعہ کا اجرا اور مشاعرہ

مظفرپور: پریس ریلیز : یاور مظفرپوری بنیادی طور پر رومانی شاعر ہیں لیکن روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی شاعری میں ایسے ایسے چاند ستارے ٹانکے ہیں جو دیگر شعرا کے یہاں کم نظر آئیں گے. ان خیالات کا اظہار بزرگ شاعر مشتاق دربھنگوی نے گلوریس ٹوٹوریل، رامپوروا مظفرپور کے زیر اہتمام منعقدہ رسم اجرا تقریب اور مشاعرہ کی صدارت فرماتے ہوئے کیا. تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت ہوئے راجد کے مقبول سیاسی رہنما قاری صہیب نے یاور مظفرپوری کو ان کے اولین شعری مجموعہ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی. انہوں نے کہا خالص ادبی مشاعروں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے. ایسے میں رامپوروا کا یہ مشاعرہ، مشاعرہ کی کمزور ہوتی تہذیب میں نئی روح پھونکنے کے مترادف ہے. رسم اجرا تقریب کی نظامت کا فریضہ صدر شعبہ اردو نیتیشور کالج کامران غنی صبا نے انجام دیا. افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے یاور مظفرپوری نے "الف اشعار” کے تعلق سے اپنے تجربات و مشاہدات بیان کیے. ان کے ہی اظہار تشکر کے ساتھ رسم اجرا تقریب اور مشاعرہ کا اختتام ہوا. مشاعرہ میں جن شعرا نے شرکت کی ان میں مشتاق دربھنگوی، یاور مظفرپوری، افتخار راہب، کامران غنی صبا، اسد رضوی، ڈاکٹر حسن رضا، ڈاکٹر صبغت اللہ حمیدی، ڈاکٹر ذکی ہاشمی، تعظیم احمد گوہر، گلریز شہزاد، ڈاکٹر رضی احمد فیضی، روح الحق ہمدم، ایم آر چشتی، معراج الدین تشنہ، ڈاکٹر شفیع بہواری، طاہر الدین طاہر، ادتیہ شفق، طالب صدیقی، خون جندن پٹوی، کلیم اللہ کلیم، پرویز اشرف، سعید قادری، وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں.
مشاعرہ میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے
اعمال دیکھے جائیں گے مشتاق حشر میں
کتنے مشاعرے پڑھے دیکھا نہ جائے گا
مشتاق دربھنگوی
ماں بلاتی ہے تو اب وقت کہاں ملتا ہے
ہم ملاقات کو اتوار پہ رکھ دیتے ہیں
اسد رضوی
داد خود اپنے سخن کی بھی ہے دینے کا مزہ
کوئی مطرب یہ غزل گر کہیں گاتا مل جائے
افتخار راہب
من کی آنکھوں سے کوئی جو دیکھ لے تجھ کو اگر
پائے گا اپنی جھلک وہ روپ ہے درپن ترا
یاور مظفرپوری
وہ اپنا قد بڑھانا چاہتا ہے
تو کیا مجھ کو جھکانا چاہتا ہے
تعظیم احمد گوہر
تیری تاخیر سے نہیں شکوہ
اب ترا انتظار ہے ہی نہیں
ایم آر چشتی
جانا تھا چلے جاتے کوئی بات نہیں تھی
دل توڑ کے جاؤگے یہ معلوم نہیں تھا
صبغت اللہ حمیدی
مجھ کو طرح طرح سے وہی لوٹتا رہا
میں دیوتا سمجھ کے جسے پوجتا رہا
ذکی ہاشمی
اسی لیے تو مجھے مانگنا نہیں آتا
کہ بے طلب ہی ملا ہے ترے خزانے سے
طاہر الدین طاہر
نہ میں بادل میں اڑتا ہوں نہ طغیانی میں رہتا ہوں
میں جس جھرنے کا زمزم ہوں اسی پانی میں رہتا ہوں
گلریز شہزاد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button