
دہلی کے تین معروف علماء کی رحلت پر تعزیتی مجلس کا انعقاد
نئ دہلی، 12 اگست (نامہ نگار) گھونڈہ دہلی کا مشہور ادارہ جامعۃ الشعیب للتخصصات میں ہندوستان کے تین اکابر علماء حضرت مولانا محمد سعیدی رح سابق ناظم جامعہ مظاہر علوم وقف سہارنپور حضرت مولانا محمد داؤد امینی رح اور مولانا ڈاکٹر سعید الدین قاسمی رح کے حالیہ دنوں میں وفات و حسرت آیات پر ایصالِ ثواب و تعزیتی پروگرام منعقد کیا گیا۔قاری زین العابدین سجادی کی تلاوت قرآن کریم سے مجلس کا آغاز ہوا۔نعت نبی صداقت اشاعتی نے پیش کیا۔پروگرام کی صدارت مولانا افتخارحسین قاسمی مدنی نے فرمائ،جبکہ نظامت کے فرائض صدر مدرس قاضی شہادت چترویدی نے انجام دیا۔بعد ازاں مفتی عبد الرافع قاسمی مبلغِ دارالعلوم وقف دیوبند وجنرل سکریٹری اتحاد علماء حق نے تینوں اکابرین کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا جامعہ مظاہر علوم وقف سہارنپور کے ناظم مولانا محمد سعیدی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک فرد اور ایک شخص نہیں بلکہ ایک انجمن تھے ان کے انتقال سے صرف مظاہر علوم وقف ہی نہیں بلکہ ہم سب کیلئےایک خلاء پیدا ہو گیا۔ ڈاکٹر سعید الدین قاسمی رحمہ اللّٰہ علیہ نے سرزمین دہلی کے اندر جمعیت علماء کو اپنے خونِ جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا۔ مفتی تبارک کریم مظاہری نے کہا کہ جامعہ مظاہر علوم وقف کے ناظم مولانا محمد سعیدی رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب کشف و صاحب نظر و بصیرت دوربین انسان تھے جو ان کے فیصلوں سے ظاہر ہوتا تھا۔مولانا محمد داؤد امینی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے والد مرحوم مفتی ظفر الدین رح کے طرز پر مدرسہ باب العلوم جعفر آباد کو پروان چڑھایا۔ساتھ ہی دہلی کے ہر چھوٹے بڑے مدارس اور جمعیت کے ہر کاز کو اور رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کی تحریک کو سرزمین دہلی کے اندر فعال اور پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔اور حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الدین قاسمی بڑے نیک اور حسن سیرت کے حامل انسان تھے۔مدرسہ مظاہر علوم وقف کے مبلغ مولانا ذوالفقار مظاہری نے فرمایا کہ میں نے حضرت ناظم صاحب کے دور نظامت کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور 23سال حضرت ناظم صاحب کے نظامت میں کام کیا ہے اس طویل مدت میں ان کے قلم سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس سے میری ذات کو تکلیف ہوئی ہو۔مولانا داؤد امینی رحمۃ اللّہ علیہ کے اسکول میں میرے بچے پڑھے ہیں میرا مولانا سے واسطہ رہا ہے بڑے نیک دل انسان تھے۔مولانا ڈاکٹر سعید الدین قاسمی عاشق قرآن تھےاور تصحیح و تجوید سے پڑھنے کو بڑا پسند فرماتے تھے۔