
ہوٹل چیخوف
ذاکر حسین
بانی:الفلاح فاؤنڈیشن (بلڈ ڈونیٹ گروپ)
26 جون 2025
مطلع ابرآلود تھا، موسم میں خنکی تھی، شرجیل نے رین کوٹ اٹھائ اور باہر نکلا، گیراج پہنچ کر کار نکالی اور چیف جوزف روڈ کی جانب چل پڑا۔ کار تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی۔ موسم خراب ہونے کے باعث سڑک سنسان تھی۔ کبھی کبھار اکا دکا گاڑیاں نظر آتیں پھر وہی سناٹا۔ تھوڑی دیر میں شرجیل چیف جوزف روڈ پار کر علاقے کےمشہور ریستوران ہوٹل چیخوف کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوا۔گاڑی پارکنگ میں پارک کی اور ہوٹل کے اندر داخل ہو گیا۔ اندر بے ہنگم میوزک نے اس کا استقبال کیا۔ وہ سیدھا ہوٹل کے مینیجر کے دروازے پر پہنچا اور انگلی سے دروازے پر ناک کیا۔ چند سیکنڈ کے وقفہ پر دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہو گیا۔ سامنے ایک پستہ قد اور بھدی شکل کا تقریباً 50,60 کی عمر کا شخص کرسی پر براجمان ملا۔ شرجیل بلا توقف اس سے مخاطب ہوا۔ جینی کدھر ہے؟ لہجے میں غصے کا عنصر صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ پستہ قد آدمی کے چہرے پر خوف کے سائے کو شرجیل نے محسوس کیا ۔ پستہ قد آدمی ابھی خاموش تھا۔ شرجیل نے اپنا جملہ دہرایا”اس بار شرجیل کے لہجے میں غصہ اور دھمکی دونوں شامل تھی۔ اس سے قبل کہ مینیجر کچھ بولتا، شرجیل نے اس کی ناک پر بھر پور وار کیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ شاید بے ہوش ہوا تھا۔ شرجیل نے جلدی جلدی اس کی جیب ٹٹولی اور اسے جس چیز کی تلاش تھی ، وہ مل گئ۔ اسے ریستوران کے تہہ خانے کی چابی مل گئ تھی۔ اس نے مینیجر کے روم سے ہی تہہ خانے کے دروازے کا لاک کھولا اور زینے سے اندر داخل ہو گیا۔اندر مدھم روشنی تھی۔ روم کی حالت بتا رہی تھی کہ روم کو کسی خاص مواقع کے طور
پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ شرجیل نے اندر داخل ہو کر بلب جلایا۔ اندر روشنی پھیل گئی۔ روم کے کونے میں جینی اوندھے منھ لیٹے لمبی لمبی سانس لے رہا تھا۔ شرجیل نے جینی کو رسی سے بندھے ہاتھ پیر کو آزاد کیا اور وہاں سے باہر نکلنے کی ترتیب سوچنے لگا۔اچانک اسے یاد آیا کہ روبی نے اس سے کبھی ذکر کیا تھا کہ ریستوران کا ایک دروازہ سمندر کی طرف ہے، جسے غیر قانونی اشیاء کے کاروبار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شرجیل نے لگ بھگ پون گھنٹہ کی محنت کے بعد آخیر کار سمندر کی جانب والا دروازہ تلاش کر لیا۔ وہ جینی کو لیکر باہر نکلا اور بوٹ سے ساحل تک پہنچا۔ یہاں سے انہیں اپنی کار تک پہنچنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگے۔ شرجیل نے کار اسٹارٹ کی اور کچھ ہی دیر میں کار مین شاہراہ پر فراٹے بھرتی رہی۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد شرجیل کی کار وزیر داخلہ کے بنگلہ کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہی تھی۔ اس سے قبل کہ شرجیل کار پارک کرتا۔ چھت پر کھڑی جینی کی ماں چلائ۔ جینی، جینی۔۔ شاید ماں نے کار کے شیشے سے جھانکتے جینی کو دیکھ لیا تھا۔ جب تک کار پارک ہوتی۔ جینی کی ماں، بہن اور چھوٹا بھائی شرجیل کی کار کے پاس پہنچ چکے تھے۔ ماں نے جینی کو گلے لگایا اور شرجیل کی جانب تشکرانہ انداز میں دیکھنے لگی۔ جینی کی ماں نے شرجیل کو بہت روکنے کی کوشش کی لیکن وہ رکا نہیں۔ ایک بار پھر شرجیل کی گاڑی سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی۔ وہ کچھ ہی دیر میں شرجیل کی کار ڈی آئی جی کے بنگلے کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئ۔ شرجیل سیدھا ڈی آئی جی کے آفس میں داخل ہوا اور ساری روداد گوش گذار کر دی۔ دس منٹ کی گفتگو کے بعد ڈی آئی جی نے فون پر اپنے ماتحت افسران کو چیف جوزف روڈ پر واقع چیخوف ریستوران پر چھاپے کے احکامات صادر کئے۔ لگ بھگ رات گیارہ بجے آپریشن ختم ہوا۔ دو درجن سے زیادہ افراد بازیاب ہوئے اور کروڑوں کے اسلحہ اور نشہ آور اشیاء وہ ان سے برآمد ہوئیں۔ دوسرے دن تمام اخبارات کی سرخی میں شرجیل کے کارنامے کا ذکر تھا۔صبح ناشتے کی میز پر شرجیل نے اخبار دیکھا اور ماضی میں کھو گیا۔ ابا کہتے تھے؟ تم بڑے بڑے کارنامے انجام دو گے۔ مجھے امید نہیں یقین ہے، لیکن تب تک شاید میں نہ رہوں۔ابا کے الفاظ اس کے ذہن میں گردش کرنےلگے۔اچانک سے شرجیل کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ آئ،وہ اچانک خود سے گویا ہوا۔۔کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔۔۔۔اور ناشتے کی میز سے سر ٹکاکر لمبی لمبی سانس لینے لگا ۔۔