مضامین و مقالات

سنگھ کو دودھ پلاتی عدلیہ؟

اجیت ساہی

صدیق کپن کو سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے۔ یہ بہت اچھی اور تسلی بخش بات ہے۔ میں صدیق کپن سے کئی سال پہلے ملا تھا۔ وہ بہت ایماندار اور مخلص انسان ہیں۔ انھیں جیل بھیجنا اپنے آپ میں جرم تھا اور ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت قانون کو پس پشت ڈال کر پوری طرح مسلمانوں سے نفرت میں ملوث ہے؛ لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کپن کو اچانک یہ ضمانت کیوں مل گئی؟
تقریباً ایک ماہ قبل امریکی محکمہ خارجہ کے دو اہل کار واشنگٹن ڈی سی کے ایک ریستوران میں مجھ سے ملنے آئے۔ کھانا کھاتے ہوئے ہم نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی بات شروع کی، ہم عدلیہ کے علاوہ تقریباً ہر چیز پر متفق تھے۔ میں نے انھیں کئی مثالیں دے کر بتایا کہ ہندوستان کی عدالتیں کس طرح سنگھی بن گئی ہیں اور ان کا ہر فیصلہ عوام دشمن ہوتا ہے اور ان فیصلوں سے کیسے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان کے جج اوپر سے نیچے تک مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور حکومت کے مخالفین کو ملک دشمن سمجھتے ہیں ۔ بحث کے دوران ایک امریکی افسر نے مجھ سے پوچھا کہ اگر ایسا ہے تو محمد زبیر کی ضمانت کیسے ہوئی؟ میں نے جواب دیا ’تاکہ آپ یہاں بیٹھ کر مجھے بتاسکیں کہ دیکھو، ایسا نہیں ہے ؛کیوں کہ محمد زبیر کو ضمانت مل گئی ہے۔’
چیف جسٹس آف انڈیا یویو للت نے کپن کو ضمانت دی ہے، ابھی ایک ہفتہ قبل اسی چیف جسٹس نے گجرات فسادات کے تمام مقدمات کو ایک ہی جھٹکے میں بند کر دیا تھا۔ ابھی چند ہفتے پہلے سپریم کورٹ نے ذکیہ جعفری کیس اور چھتیس گڑھ پولیس قتل کیس میں انتہائی ناقص فیصلے سنائے ہیں۔ بلڈوزر کے غیر قانونی استعمال کے کیس میں سپریم کورٹ کی بولتی بند ہوگئی تھی۔ اب تو یہ عام عمارتیں گرانے پر تلے ہوئے ہیں جیسا کہ ہم نے اسی ہفتے آسام میں دیکھا۔
آج کل سنگھی جج ہیمنت گپتا حجاب پر پابندی کے معاملے میں جس طرح مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں، اس سے بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ فیصلہ کیسا آئے گا۔

تین سال کے انتظار کے بعد دو دن پہلے ہی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اب وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دائر مقدمات کی سماعت کرے گا۔ کوئی بے وقوف ہی ہوگا، جو سوچے گا کہ سپریم کورٹ اس قانون کو القط کردے گا۔
پورے ہندوستان میں ہزاروں مسلمان بغیر کسی وجہ کے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ درجنوں نچلی عدالتیں بغیر ثبوت کے مسلمانوں کو سزاے موت دے رہی ہیں۔ عمر خالد جیسے درجنوں مسلمان دہلی فسادات کیس میں صرف اس لیے جیل میں بند ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ سنجیو بھٹ کی ضمانت کی درخواست تین سال سے سپریم کورٹ میں درج ہی نہیں ہوپا رہی ہے۔ بھیما کورے گاؤں کیس میں جیل میں بند اسٹین سوامی کی موت ہوگئی اور یہ سپریم کورٹ سوتا رہا۔ کشمیر کے ہزاروں مسلم نوجوان کہاں کس جیل میں بند ہیں، کسی کو خبر تک نہیں۔ سپریم کورٹ کی زبان پر گویا آبلے پڑے ہوئے ہیں ۔
بہت سے لوگوں نے سپریم کورٹ کو ’سپریم کوٹھا‘ بھی کہنا شروع کر دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ موازنہ غیر منصفانہ ہے۔ کوٹھے میں جسم کا کاروبار کرنے والی بے بس اور مجبور خواتین حالات کا شکار ہیں۔ ان کی خوفناک زندگی ان پر مسلط کی گئی ہے؛ لیکن سپریم کورٹ کے جج پوری زندگی راضی خوشی اپنا ایمان بیچتے ہیں اور آج بھی وہی کام کر رہے ہیں۔ یہ ہندو اونچی ذات کے سنگھی جج قانون کے رکھوالے نہیں ہیں، یہ تو بس دلال ہیں۔ ایک دوبیل/ رہائی ٹکڑوں کی طرح ہماری طرف پھینک دینا ان کی سازش ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button