
ارشدؔ دیوان برہمپوری ایک ابھر تا ہوا نوجوان شاعر
ارشدؔ دیوان برہمپوری ایک نوجوان شاعر ہیں جو ہندوستان کے بہار ریاست کے ضلع دربھنگہ کے جالے تعلقہ کے برہمپور پچھمی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں نہ صرف جذبات اور احساسات کی گہرائی ہے، بلکہ ان کے اشعار زندگی کے مختلف پہلوؤں کا عکاس بھی ہیں، جن میں نوجوانی کی جدوجہد، محبت کے پیچیدہ جذبات، سماجی مسائل، اور انسانیت کی مختلف شکلیں شامل ہیں۔ ارشدؔ دیوان کی شاعری میں تازگی اور جدیدیت کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے، جس سے وہ اپنے معاصر شاعروں سے الگ پہچانے جاتے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ارشدؔ دیوان کی ابتدائی تعلیم ان کے گاؤں کے اسکول میں ہوئی، جہاں سے انہوں نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔ بچپن سے ہی وہ ادبی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے تھے، اور شاعری کا شوق انہیں اپنے ذاتی تجربات، مشاہدات، اور اندرونی جذبات کو لفظوں میں ڈھالنے کی طرف راغب کرتا تھا۔ ان کی تعلیم نے ان کے ذہنی افق کو وسیع کیا اور ادب سے محبت کو بڑھایا، جس کے نتیجے میں ان کی شاعری نے ایک منفرد رنگ اختیار کیا۔
ارشدؔ دیوان کی شاعری میں اکثر وہ سماجی اور ثقافتی موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں جو کہ ان کی روزمرہ زندگی کے تجربات اور گاؤں کے ماحول سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اکثر دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے الفاظ اور محسوسات کی عکاسی ہوتی ہے، جنہیں پڑھ کر قاری کو ایک نیا وژن ملتا ہے۔ ان کے اشعار میں دکھ، غم، خوشی، محبت، اور انسانیت کے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ نقطہ نظر پایا جاتا ہے۔
شاعری کی ابتدا اور موضوعات
ارشدؔ دیوان کی شاعری کی ابتدا نوجوانی کے دور سے ہوئی، جب انہوں نے اپنے جذبات اور خیالات کو ایک منظم اور فنکارانہ انداز میں قلمبند کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں ان کی شاعری میں ان کے اندر کے کرب اور محبت کی تلاش کے گہرے پہلو نظر آتے ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ان کی شاعری میں سماجی مسائل اور موجودہ دور کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی جانے لگی۔
ان کی شاعری میں صرف ذاتی تجربات کی جھلک نہیں ملتی بلکہ معاشرتی موضوعات جیسے غربت، ظلم، انصاف کی کمی، اور زندگی کی حقیقتوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ارشدؔ دیوان نے انسانیت اور بھائی چارے کے پیغامات کو اپنی غزلوں میں اہمیت دی ہے۔ ان کی غزلوں میں سادگی اور پیچیدگی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے، جو ان کے اشعار کو دلوں میں گھر کر لینے والی بناتا ہے۔
ارشدؔ دیوان کی کتابیں اور غزلیں
ارشدؔ دیوان کی شاعری کا ایک خاص پہلو ان کی کتابوں اور غزلوں کا منفرد انداز ہے۔ ان کی کتابیں اور غزلیں ان کے تخلیقی سفر کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں رومانی، محبت، غم، اور خوشی کے مختلف رنگ دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان کی شاعری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر لکھتے ہوئے، اس میں اپنی ذاتی تجربات کی چھاپ ضرور چھوڑتے ہیں۔
ان کی غزلیں اور اشعار نہ صرف ذاتی جذبات کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ان میں وہ سماجی اور سیاسی پہلو بھی نمایاں ہیں جن پر انہوں نے اپنی گہری نظر ڈال کر قاری کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ ان کی غزلیں اور اشعار اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ وہ نہ صرف ایک شاعر ہیں بلکہ ایک سماجی و فکری فرد بھی ہیں جو اپنے وقت کے مسائل پر غور و فکر کرتا ہے۔
شاعری کی جدیدیت
ارشدؔ دیوان کی شاعری میں ایک خاص نوعیت کی عصری حسیت اور جدیدیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے اشعار میں صرف کلاسیکی یا روایتی موضوعات تک محدود نہیں رہتے، بلکہ انہوں نے اپنے اشعار میں جدید مسائل کو بھی شامل کیا ہے جیسے معاشرتی تبدیلیاں، ٹیکنالوجی کا اثر، اور عالمی مسائل۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جدیدیت کو بہت خوبصورتی سے کلاسیکی اسلوب میں ڈھالتے ہیں، جس سے ان کی تخلیقات میں ایک منفرد پہلو پیدا ہوتا ہے۔
زندگی کی پیچیدگیاں اور شاعری میں عکاسی
ارشدؔ دیوان کی شاعری زندگی کی پیچیدگیوں اور انسان کی اندرونی دنیا کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں زندگی کے کٹھن راستوں، دکھوں، کامیابیوں، اور ناکامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی غزلوں میں انسان کی اندرونی کشمکش اور روحانی تکمیل کی تلاش کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں کو بڑے سادہ اور موثر انداز میں بیان کرتے ہیں، جو کہ قاری کو ایک نئی سوچ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ارشدؔ دیوان کا اثر
ارشدؔ دیوان کی شاعری نے ادب کی دنیا میں ایک نیا رنگ پیدا کیا ہے۔ ان کے اشعار اور غزلیں صرف محض جذباتی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ ان میں زندگی کے گہرے معانی اور بصیرت چھپی ہوئی ہے۔ ان کی شاعری نے ان کے مداحوں کو نہ صرف اپنے احساسات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کی صلاحیت دی بلکہ اس نے ادب کے میدان میں نئے افق کھولے۔
ان کی غزلوں کی سادگی اور گہرائی نے ان کو اپنے وقت کے مشہور شعراء میں شامل کر دیا ہے۔ ان کی شاعری میں جدیدیت اور کلاسیک کا حسین امتزاج ان کو ان کے معاصرین سے ممتاز کرتا ہے۔ ارشدؔ دیوان کی شاعری کو آج بھی لوگوں کے دلوں میں جگہ حاصل ہے اور وہ آنے والے وقتوں میں بھی اپنی اہمیت برقرار رکھیں گے۔
نتیجہ
ارشدؔ دیوان برہمپوری کی شاعری نہ صرف ایک فرد کی تخلیقی محنت کا نتیجہ ہے بلکہ یہ ان کی زندگی کے تجربات، جذبات، اور سوچ کی عکاسی بھی ہے۔ ان کی شاعری میں وہ گہرائی اور تازگی ہے جو کسی بھی شاعر کی تخلیقات میں منفرد ہوتی ہے۔ ارشدؔ دیوان کی کتابیں اور غزلیں ایک نیا رنگ اور آواز پیش کرتی ہیں جو ادب کی دنیا میں ان کی شناخت کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
٣٣ سال کی عمر میں دو کتاب خالق بنیں
جن میں سے ایک کتاب کا نام ہے غزل کی راہوں میں
دوسری کتاب کا نام ہے لہجہ رواں
دونوں کتاب ١٥٠ ١٥٠ کلام پر مشتمل ہے
اردو اسکالر ڈاکٹر نظام شادوانی