مضامین و مقالات

گودھرا حادثے کا زخم اور فلم ’سابرمتی رپورٹ‘

پسِ آئینہ:سہیل انجم

حال ہی میں ریلیز ہونے والی ایکتا کپور کی فلم ’سابرمتی رپورٹ‘ سرخیوں میں ہے۔ یہ فلم 27 فروری 2002 کو گودھرا اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس میں آتش زدگی کے موضوع پر، جس میں 59 کارسیوک ہلاک ہوئے تھے، بنائی گئی ہے۔ فلم بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ اس فلم کا مقصد سابرمتی ایکسپریس میں آتش زدگی کی سچائی کو سامنے لانا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں ایک تنازع بھی پیدا ہو گیا ہے جس پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے۔ فلم کے اصل کردار وکرانت میسی ہیں جن کو فلم ’بارہویں فیل‘سے شہرت ملی۔ وہ ایک ٹی وی چینل میں کیمرا مین سمر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نیوز چینل کی اسٹار رپورٹر کا نام منیکا ہے جس کا کردار رِدھی ڈوگرہ نے نبھایا ہے جو کہ ناظرین میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ 27 فروری 2002 کو ان کے ایڈیٹر رمن نے انھیں ٹرین حادثے کی خبر دی اور دونوں رپورٹنگ کے لیے گودھرا پہنچ جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں سے بات کرتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ حادثہ نہیں تھا۔ لیکن منیکا اس کے حادثہ ہونے پر زور دیتی ہے اور اس کے لیے اس وقت کی ریاستی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ ادھر سمر کو شبہ ہے کہ سچائی دبا دی گئی ہے۔ وہ گودھرا کے سول اسپتال میں جاتا ہے اور زخمیوں سے بات کرتا ہے جہاں لوگ بتاتے ہیں کہ شرپسندوں نے ٹرین میں آگ لگائی تھی۔ وہ گفتگو کا ٹیپ نیوز چینل کو دے دیتا ہے۔ لیکن اسے دکھایا نہیں جاتا بلکہ کنیکا کی رپورٹ دکھائی جاتی ہے۔ سمر دفتر کے باہر ایڈیٹر اور کنیکا سے لڑ پڑتا ہے اور اسے ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ پانچ سال کے بعد 2007 میں امریتا گل (راشی کھنہ) کا رپورٹر کے طور پر تقرر ہوتا ہے۔ وہ منیکا کی مداح ہے۔ ادھر منیکا اور رمن کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ پھر وزیر اعلیٰ بننے والے ہیں۔ لہٰذا وہ ان کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے امریتا گل سے گودھرا واقعے پر فالو اپ اسٹوری کرنے کو کہتے ہیں۔ امریتا آرکائیوز میں جاتی ہے تو اسے سمر کے ٹیپ ملتے ہیں۔ وہ اس سے ملتی ہے اور دونوں اس اسٹوری پر از سرنو کام کرتے ہیں۔ پھر کہانی آگے بڑھتی ہے۔
جب اس فلم کا ٹیزر ریلیز ہوا تو اسی وقت یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کشمیر فائلز کی طرح ایک متنازع فلم ہے اور اس کا مقصد وہ نہیں ہے جو بتایا جا رہا ہے۔ اب جبکہ فلم ریلیز ہو گئی ہے تو اس کے ناظرین دو قسم کی آراءظاہر کر رہے ہیں۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس میں سچائی کو اجاگر کیا گیا ہے یعنی آگ سازش کے تحت لگائی گئی۔ (حالانکہ دو جانچ کمیٹیوں نے الگ الگ نتیجہ اخذ کیا تھا)۔ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ فلم یکطرفہ ہے اور حادثے کو کس طرح دوسرا رنگ دیا گیا اور ایک سازش کے تحت بدترین نوعیت کا فساد کرایا گیا اس پر خاموشی اختیار کرتی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتی کہ گجرات فسادات میں کن لوگوں کا ہاتھ تھا۔ البتہ میسی نے اس ڈائلاگ کے سہارے گودی میڈیا پر تنقید کی ہے کہ ’عوام سچ جاننے کے لیے میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں لیکن میڈیا اس سے قبل اوپر بیٹھے مالکوں کی طرف دیکھتا ہے‘۔ میسی نے نیوز چینلوں اور اخباروں کو انٹرویو دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس فلم کے توسط سے حقیقت سامنے لائی گئی ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اس فلم کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ فیک بیانیہ تیار کرکے سچائی کو چھپایا نہیں جا سکتا وہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ بحث کا الگ موضوع ہے کہ کوئی فلم جو کہ ایک تخیلاتی کہانی پر بنائی جاتی ہے سچائی کو مکمل طور پر کیسے اجاگر کر سکتی ہے اور کیا کسی فلم میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ صد فیصد سچ ہوتا ہے۔ گجرات فسادات پر ’پرزانیہ‘ نام کی ایک فلم آئی تھی جس میں نصیر الدین شاہ نے لیڈ رول کیا تھا۔ وہ ایک پارسی جوڑے کی کہانی تھی جس کا معصوم بیٹا فسادات کے دوران غائب ہو گیا اور اس کا پتہ نہیں چلا۔ اس فلم میں فسادات کے دوران شرپسندوں کو چھوٹ دینے کے معاملے کو بھی اجاگر کیا گیا تھا۔ لیکن پہلے تو اسے دکھانے کی اجازت نہیں دی گئی اور پھر بہت جدوجہد کے بعد 2007 میں اسے دکھانے کی اجازت تو ملی لیکن گجرات میں نہیں۔ بہرحال اگر سب کچھ چھوڑ دیا جائے تب بھی وزیر اعظم کے بیان سے ہی فلم کے اصل مقصد کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لے لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ٹرین حادثے کے بہانے ایک مخصوص فرقے کونشانہ بنانا اور حکمرا ںجماعت کو فائدہ پہنچانا ہے۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کے دوران اس فلم کی ریلیز نے شکوک و شبہات اور بھی گہرے کر دیے ہیں۔ اسی طرح 2019 کے عام انتخابات کے موقع پر سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ پر ’ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ یعنی حادثاتی وزیر اعظم نامی فلم آئی تھی جس میں من موہن سنگھ کا کردار انوپم کھیر نے ادا کیا تھا۔ اس میں ان کو غلط انداز میں دکھایا گیا تھا۔ کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گودھرا ٹرین حادثے کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن فسادات میں اس وقت کے سیاست دانوں کے کردار پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے۔ گجرات کے سابق وزیر داخلہ اور مودی مخالف سیاست داں ہرین پانڈیا کے پر اسرار قتل اور آئی پی ایس سنجیو بھٹ کی سزا کے بارے میں بھی حاموشی ہے۔ قارئین کو معلوم ہے کہ سنجیو بھٹ کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔
بہرحال آئیے وکرانت میسی کے بارے میں گفتگو کر لی جائے۔ انھوں نے اپنے انٹرویوز میں کہا ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے ملک کے حالات بہت اچھے ہیں۔ نہ تو مسلمان خطرے میں ہے اور نہ ہی ہندو۔ دراصل وہ دس سال قبل سخت مودی مخالف مانے جاتے تھے۔ لیکن ان کی قلب ماہیت ہو گئی یعنی ان کا دل بدل گیا اور اب وہ مودی بھکت ہو گئے ہیں۔ ’آج تک‘ ویب سائٹ پر سنیم سری واستو نے اپنے مضمون میں ان کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی ستائش کیوں کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں میسی اس وقت مودی کے لیے بیٹنگ کر رہے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ملکی حالات کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ میسی کہتے ہیں کہ میں گزشتہ دس برسوں میں بدل گیا ہوں۔ کوئی بھی شخص اگر کسی ایجنڈے کے تحت کام نہیں کر رہا ہے تو اسے دس برسوں میں ملک میں آئی تبدیلی دکھائی دے گی۔ ممبئی میں اب ٹرینوں میں دھماکے نہیں ہوتے۔ سلسلے وار بم نہیں پھٹتے۔ یوپی بہار میں ہندو مسلم فسادات کسی زمانے میں عام بات تھی لیکن اب نہیں ہوتے۔ پورے ملک میں امن و شانتی ہے۔ وہ آزادی کے بارے میں کنگنا رناوت کی بولی بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’مغل آئے، ڈچ آئے، فرانسیسی آئے اور پھر انگریز آئے۔ سیکڑوں سال کے ظلم کے بعد نام نہاد آزادی ملی۔ جو آج ہندو ہے اسے بالآخر وہ جگہ مل گئی کہ وہ اپنے ہی ملک میں اپنی شناخت کا مطالبہ کر رہا ہے‘۔ مضمون نگار کا خیال ہے کہ ’گزشتہ دس برسوں میں ایسے طبقے کو طاقت ملی ہے جو اپنے دم پر کسی فلم کو فلاپ کرا سکتا ہے اور اس نے کرایا ہے۔ شاید اسی لیے میسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی فلم کو کامیاب بنانے کے لیے وہ مودی بھکت بن گئے ہیں‘۔ بہرحال اگر میسی نے اپنی فلم کے لیے اپنے نظریات بدل لیے ہیں تو اس میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ بڑے بڑے سیکولر لوگوں نے اپنا قبلہ بدل لیا ہے۔ البتہ ہم میسی سے یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ پہلے تو مسلمانوں کی ماب لنچنگ نہیں ہوتی تھی۔ مسجدوں پر مند رہونے کے اس طرح دعوے نہیں کیے جاتے تھے۔ ہندووں کو مسلمانوں کا ڈر نہیں دکھایا جاتا تھا۔ دھرم سنسدوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیلیں نہیں کی جاتی تھیں۔ معمولی معمولی باتوں پر لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کے گھر بلڈوزر سے گرائے نہیں جاتے تھے۔ شرپسندوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے چھوٹ نہیں ملتی تھی۔ مسلمانوں کی اوقاف کی املاک کو ہڑپنے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی۔ اور بھی بہت کچھ پہلے نہیں ہوتا تھا مگر اب ہو رہا ہے۔ میسی کو یہ سب چیزیں کیوں نہیں دکھائی دیتیں۔
موبائل: 9818195929

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button