
کچھ تو شرم کرو
سہیل انجم
چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس نے معاشرے میں کسی حد تک اتھل پتھل مچا دی۔ لوگ یہ پوچھنے لگے کہ کیا شہرت کی خاطر کوئی اتنا گر سکتا ہے کہ اپنے جسم کی یوں نمائش کرنے لگے۔ دراصل ایک انفلوئینسر ہے خوشی مکھرجی۔ وہ ممبئی کی سڑک پر اس حالت میں نظر آئی کہ حیادار افراد نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ اس نے سیاہ کلر کا جو لباس پہنا تھا وہ ایک تو بہت چھوٹا تھا، دوسرے دونوں سائڈوں میں بغل سے ذرا نیچے تک اس انداز سے گولائی میں کٹا ہوا تھا کہ چھپاتا کم اور دکھاتا زیادہ تھا۔ وہ جوں ہی گاڑی سے اتری، ہوا کا ایک جھونکا آیا جس سے اس کا لباس بے ترتیب ہو گیا۔ وہ ایک ہاتھ سے سامنے شرمگاہ کا حصہ چھپاتی اور دوسرے ہاتھ سے پیچھے کا حصہ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ کافی دیر تک مسکرا مسکرا کر تصاویر کھنچواتی اور ویڈیو بنواتی رہی۔ لباس کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ اس نے اندر کچھ نہیں پہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک معمر شخص نے تبصرہ کیا کہ ”چڈی تو پہن لیتی“۔ سوشل میڈیا کی زبان میں ایسی شخصیات کو ”سنسیشن“ کہا جاتا ہے۔ یعنی اس نے سوشل میڈیا پر سنسنی پھیلا دی۔ یقیناً اس ویڈیو نے سنسنی پھیلائی ہے۔ لیکن یہ سنسنی بڑی بھونڈی اور بے حیائی و بے آبروئی کو پروان چڑھانے والی ہے۔
اس معاملے پر سوشل میڈیا پر تبصروں کا سیلاب آگیا۔ لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو گئے۔ قدرے بڑے خیمے نے طنز و تشنیع کے تیروں سے خوشی کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا اور اسے لعن طعن کیا جانے لگا۔ ایک ٹی وی اداکارہ فلک ناز نے اپنی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جس میں اس نے خوشی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکومت سے اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا کہ حکومت ایسی بے حیائی کو پھیلانے کی اجازت کیسے دے رہی ہے۔ اس کے مطابق اگر ہم جیسے لوگ گلیوں میں پھرنے والے آوارہ کتوں کو کھانا کھلا دیں تو ایکشن ہو جاتا ہے اور کیس قائم کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو اس انداز میں گھومنے کی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ اس نے آوارہ کتوں کو کھانا کھلانے اور اس قسم کا لباس پہن کر سرعام ٹہلنے کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کچھ بھی پہن کر لوگ سڑک پر نکل رہے ہیں تو اس پر حکومت کوئی اعتراض کیوں نہیں کر رہی ہے۔ میڈیا جو ایسے لوگوں کو کور کر رہا ہے اور جو لوگ کور ہو رہے ہیں ان پر جرمانہ کیوں نہیں لگایا جاتا۔ اس نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور انتظامیہ کو متوجہ کریں۔ بقول اس کے میں جاننا چاہتی ہوں کہ کیا یہ صحیح ہے اور اگر صحیح ہے تو آوارہ کتوں کو کھانا کھلانا غلط کیسے ہے۔ اگر اس عریانی کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تو پھر کتوں اور بچوں کو کھانا کھلانے پر بھی آواز نہ اٹھائیں۔
اپنے خلاف ہونے والے احتجاج پر خوشی نے بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی اور اپنی اس بے حیائی و بے غیرتی کا دفاع کیا۔ اس نے براہ راست فلک ناز کو تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن سوال کیا کہ وہ ایسا لباس کیوں نہیں پہن سکتی۔ اس نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ اس نے چڈی پہنی تھی البتہ اس کی اسٹرپ کو اس نے اوپر کر رکھا تھا۔ کوئی بغیر چڈی کے کیسے باہر نکل سکتا ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ وہ کیا پہن رہی ہے اور لوگ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنے تبصرے میں کہا کہ وہ خود اس لباس کی وجہ سے پریشانی محسوس کر رہی تھی اسی لیے خود کو چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ اس پر اس کا کہنا ہے کہ وہ بالکل پریشانی میں نہیں تھی۔ البتہ ہوا چل رہی تھی۔ (جس کی وجہ سے وہ لباس درست کر رہی تھی)۔ کیا میں پورا اٹھا کر دکھا دیتی۔ میں تو اپنے لباس کو سنبھال رہی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ لباس کے معاملے میں محتاط رہتی ہے۔
ہم نے یہ جو تفصیلات پیش کی ہیں، ممکن ہے کچھ لوگوں کو پسند نہ آئیں کہ یہ سب لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ دراصل اس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ اب ہمارا وہ معاشرہ جو تہذیب و شائستگی اور شرم و حیا سے عبارت تھا، ترقی کرکے کہاں تک جا پہنچا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ لوگ بے حیائی کو بڑھاوا دے کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتے ہیں بلکہ اگر اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی کرتوت کا دفاع کیا جاتا ہے۔ کیا یہی لباس کے معاملے میں محتاط رہنا ہے کہ پورا جسم کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا جائے۔ اگر یہ احتیاط ہے تو بد احتیاطی کیا ہوگی۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب اس نے سرعام بے حیائی و بے شرمی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے قبل بھی وہ اس قسم کے تماشے کر چکی ہے۔ پہلے بھی وہ اندرونی کپڑوں کے بغیر اور چھپانے والے اعزا کو دکھانے والے کپڑے زیب تن کرکے باہر نکلتی رہی ہے۔ اس کے خیال میں اس سے اس کو شہرت حاصل ہو رہی ہے۔ لیکن اسے نہیں معلوم کہ وہ ایک تو بدنامی کا تاج اپنے سر پر سجا رہی ہے اور دوسرے سماج میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ آج بچے بچے کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ کون کب کیا دیکھ رہا ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ گلیوں میں نکڑ پر نوجوان غول در غول موبائل دیکھتے رہتے ہیں۔ کیا وہ نصیحت آموز چیزیں دیکھتے ہیں۔ جی نہیں بلکہ اسی قسم کی خرافاتی اور اس سے بھی خراب چیزیں دیکھتے ہیں۔ یہ مواد ان کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہا ہے اور وہ انسانی قدروں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر طلبہ کے اذہان اور بھی آلودہ ہو رہے ہیں اور ان میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ کیا ہمارا معاشرہ اس قسم کی غلیظ حرکتوں پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ اگر قانونی طور پر کسی ایکشن کی گنجائش نہیں ہے تو از خود ایسی چیزوں پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ لیکن سوشل میڈیا کے زمانے میں یہ آسان نہیں ہے۔ ہم لوگ خود کو نہیں روک پاتے تو بچوں کو کیا روک پائیں گے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج میں انسانی قدروں اور شرافت و شائستگی کو فروغ دینے کے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے لیے جوبھی مناسب ہو قدم اٹھایا جانا چاہیے۔
فلمی دنیا اچھے اوربرے دونوں طرح کے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اچھے کم اور خراب زیادہ ہیں۔ جو فلمیں بنتی ہیں وہ دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو سماج کا آئینہ ہوتی ہیں اور دوسری وہ جو سماج کو بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ بہت سی ایسی فلمیں بھی بنی ہیں جو مشرقی تہذیب کو فروغ دیتی ہیں۔ لیکن مغربی تہذیب کو پروان چڑھانے اور بے غیرتی کی ستائش کرنے والی فلمیں بھی بنتی ہیں۔ بلکہ ایسی فلموں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان فلموں میں جو عریانی دکھائی جاتی ہے وہ کیا کم تھی کہ اب سوشل میڈیا کے طفیل میں ایک نیا نام ”انفلوئینسر“ مل گیا ہے۔ یعنی ایسے لوگ جو اپنے کاموں و کارناموں سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر کوئی انفلوئینسر اچھے کاموں سے لوگوں کو متاثرکرے تو ٹھیک ہے، وہ قابل ستائش ہے لیکن غلط اور گندے کاموں سے متاثر کرنے کی کوشش بہرحال قابل مذمت ہے۔
بہت پہلے ایک فلم آئی تھی ”جب جب پھول کھلے“۔ اس میں کلیدی کردار ششی کپور اور نندا نے ادا کیا تھا۔ نندا کشمیر جاتی ہے اور ایک خوبصورت نوجوان ششی کپور سے، جو کہ شکارا چلاتا ہے، اس کی دوستی ہو جاتی ہے۔ یہ دوستی محبت میں بدل جاتی ہے۔ دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ نندا ششی کپور کو اپنے ساتھ شہر لے آتی ہے۔ اس کی شخصیت میں بدلاو ¿ کرتی ہے اور ماڈرن سوسائٹی میں ایڈجسٹ ہونے کے لائق بناتی ہے۔ ششی کپور لباس کے اعتبار سے فٹ تو ہو جاتا ہے لیکن اس کا دل وہی مشرقی ہے جو پہلے تھا۔ وہ ایک پارٹی میں نندا کو دوسروں کی بانہوں میں جھولتے دیکھتا ہے تو کٹ کر رہ جاتا ہے۔ پارٹی میں اس سے گانے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ وہ جو گانا گاتا ہے اس میں اپنے دل کا درد بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ مشرقی تہذیب کا دلدادہ انسان ہے۔ اسے یہ مغربیت اور یہ بے حیائی و بے شرمی پسند نہیں۔ وہ ایک خوبصورت نغمہ ہے جسے آنند بخشی نے لکھا اور محمد رفیع نے آواز دی ہے۔ یوں تو وہ فلمی نغمہ ہے لیکن اسے اصلاحی کلام سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہے۔ چونکہ وہ حسب حال ہے اس لیے جی چاہتا ہے کہ کچھ حصوں کو پیش کر دیا جائے:
کبھی پہلے دیکھا نہیں یہ سماں
یہ میں بھول سے آگیا ہوں کہاں
یہاں میں اجنبی ہوں
میں جو ہوں بس وہی ہوں
کہاں شام و سحر یہ، کہاں دن رات میرے
بہت رسوا ہوئے ہیں، یہاں جذبات میرے
نئی تہذیب ہے یہ، نیا ہے یہ زمانہ
مگر میں آدمی ہوں، وہی صدیوں پرانا
میں کیا جانوں یہ باتیں، ذرا انصاف کرنا
مری گستاخیوں کو، خدا را معاف کرنا
تری بانہوں میں دیکھوں، صنم غیروں کی بانہیں
میں لاو ¿ں گا کہاں سے، بھلا ایسی نگاہیں
یہ کوئی رقص ہوگا، کوئی دستور ہوگا
مجھے دستور ایسا، کہاں منظور ہوگا
بھلا کیسے یہ میرا، لہو ہو جائے پانی
میں کیسے بھول جاو ¿ں، میں ہوں ہندوستانی
کبھی مغرب سے مشرق، ملا ہے جو ملے گا
جہاں کا پھول ہے جو، وہیں پہ وہ کھلے گا
ترے اونچے محل میں، نہیں میرا گزارا
مجھے یاد آرہا ہے، وہ چھوٹا سا شکارا
یہاں میں اجنبی ہوں
میں جو ہوں بس وہی ہوں
موبائل: 9818195929