
اتراکھنڈ کے مسلمانوں کےمتعلق مولانا ارشد مدنی کا افسوسناک بیان
: سمیع اللہ خان
ریل میں ہوں رات جلدی سوگیا تھا صبح اٹھتے اٹھتے نجی واٹس ایپ احباب و خیرخواہوں کے پیغامات سے بھر گیا تھا کم از کم بیس سے زائد لوگوں نے مجھے پرسنل پر مولانا ارشد مدنی کا ویڈیو بیان بھیجا ہے کئی مسلمانوں نے مختلف گروپوں میں اس ویڈیو کی طرف متوجہ کیا اور سبھی مولانا کے بیان سے انتہائی افسوس اور دکھ کا شکار ہیں۔
دراصل مولانا ارشد مدنی نے فرمایا ہے کہ اتراکھنڈ میں اترکاشی کے جن مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا شورش برپا ہے… مولانا مدنی کےمطابق "وہ سب مسلمان وہاں کے رہنے والے ہی نہیں ہیں، وہ سب یہاں کے میدانی علاقوں کے رہنے والے ہیں، کچھ بجنور کے ہیں تو کچھ سہارنپور کے جو لوگ وہاں کے رہنے والے نہیں ہیں اور یہ سب وہی ہیں اور انہوں نے دہرادون میں اور دوسرے علاقوں میں اپنے مکانات بنا رکھے ہیں اب اگر ایسے حالات ہوجاتے ہیں کہ انہیں وہاں رہنا مشکل ہوجائے تو وہ چھوڑ کرکے یہاں آجائیں ”
کس نے سوچا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر ان کی ملی قیادت کے حوالے سے یہ دن بھی آجائیں گے کہ مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کا مشورہ دیا جانے لگے گا۔ مولانا کا یہ بیان کتنا بڑا ملّی واقعہ ہے اس کا اندازہ وہ لوگ لگا سکیں گے جو دس سال بعد اس بیان کو مؤرخ کی زبانی پڑھیں گے۔
مولانا کا یہ بیان اصولی اور ملّی ہر دو لحاظ سے نہ صرف غلط ہے بلکہ افسوسناک بھی ہے،
سب سے پہلے تو مولانا نے ہندوتوا کے اس ورژن کو مان لیا کہ جن مسلمانوں کو بھگایا جارہا ہے وہ مسلمان وہاں کے نہیں ہیں، یہ بات ہندوتوا غنڈوں کی مسلمانوں کو علاقوں سے نکالنے والی کارروائی تک جاتی ہے، کیونکہ وہ یہی دعوٰی کرکے ہی نکال رہے ہیں کہ یہ مسلمان یہاں کے نہیں ہیں! کل کو یہی دعوٰی اترپردیش، گجرات، مدھیہ پردیش اور دیگر صوبوں کے مسلمانوں کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے ۔
*مولانا فرما رہے ہیں کہ چونکہ ان لوگوں نے وہاں جاکر مکانات بنا لیے ہیں اور وہ کرائے کے تھے لہذا وہ انہیں چھوڑ کر آجائیں، تو یہ بتائیں کہ دنیا میں کہیں جینے اور کسی علاقے پر اپنا گھر بنانے کے لیے کوئی اور بھی طریقہ ہوتا ہے؟*
*اگر اس بنیاد پر مسلمانوں کو اپنے دوکانوں اور مکانوں سے بےدخل کرنے کا سلسلہ برداشت کرلیا جائے کہ وہ کہیں اور سے آئے ہیں توپھر آر ایس ایس کیا اسی بنیاد پر سارے ملک کے مسلمانوں کو گُھس پیٹھیا نہیں کہتی ہے؟ کیا این آر سی اور سی اے اے کی جڑ میں یہی بیانیہ کارفرما نہیں ہے؟*
*کیا مسلمانوں کو ہندوتوا شورش سے بچنے کے لیے ہجرت کا مشورہ دینا علانیہ ہار کا اعلان نہیں ہے؟ کیا بااثر شخصیات ان مسلمانوں کو تقویت پہنچانے کے لیے وہاں پہنچ نہیں سکتی تھی؟ کیا یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ یہ ہندوتوا دہشتگردی ہے اور ظلم ہے اور ہم ظلم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے؟*
*اگر آج ہم اتراکھنڈ کے ہزاروں مسلمانوں کو ہندوتوا شورش کے آگے جھک کر ہجرت کرجانے کا مشورہ دیتے ہیں تو کیا یہ ہندوتوا آگ کل کو پورے ملک کے مسلمانوں کو اپنی لپٹ میں نہیں لےگی؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ آر ایس ایس کا طرح کام کرتا ہے؟ جب اتراکھنڈ کا ہندوتوا بریگیڈ مسلمانوں کو نکال بھگانے میں کامیاب ہوگا تو اس کی بنیاد پر دوسرے صوبوں کے ہندوتوا بریگیڈ کو حوصلہ نہیں دیا جائےگا کہ اب تم بھی اپنے علاقوں میں یہی کام شروع کرو؟ ہر علاقے کے مسلمانوں کو ان کے دوکان و مکان اور کھیتی باڑی سے بےدخل کرنے کے لیے آر ایس ایس ایک صدی سے دلیلیں تیار کررہا ہے۔*
اتراکھنڈ میں اولین ماڈل ہندوراشٹر اسٹیٹ کے لیے مسلمانوں کو بےدخل کیا جانا ضروری ہے اسی لیے انہیں وہاں سے ہندوتوا دہشتگردی کے ذریعے نکالا جارہا ہے، اب اگر ملی سطح کے قائد بھی ہندوتوا ورژن کو تسلیم کرلیں اور مسلمانوں کو اپنی زمینوں سے خروج کرجانے کا مشورہ دے دیں تو اس سے ہندوتوا بریگیڈ کے حوصلے کتنے بلند ہوں گے اور مسلمان ایمانی اور مادی ہر دو اعتبار سے کتنے کمزور ہوں گے اس کا اندازہ لگائیں۔
بہت ممکن ہے کہ صرف شخصیت پرستی اور قرآن و سنت سے ماورا محض شخصیت کے اقوال کو ہی اپنا ایمانی قبلہ بنالینے والے لوگ اس واضح بیان کی بھی تاویل میں لگ جائیں گے اپنی عادت کےمطابق ہم سے ہی بدتمیزی کریں گے کیونکہ وہ حقائق دیکھنا اور سننا ہی نہیں چاہتے جب انہیں حقائق دکھائے جائیں تو چونکہ ان کےپاس کوئی جواب اور اقدامی جذبہ نہیں ہوتا ہے اسلیے وہ چیخنے چلانے لگتے ہیں لیکن مظلوم اتراکھنڈ کے مسلمانوں کےساتھ یہ مزید خیانت ہوگی ہم اپنے ایمانی نظریاتی اور ملی بیداری کے کاز پر اپنے ضمیر اور روح کےساتھ کاربند ہیں اور رہیں گے ہم پر ایسی الزام تراشیوں اور بدتمیزی کا کوئی فرق نہیں پڑتا
البتہ ایسے لوگ بھی سمجھیں گے مگر جب یہ ہندوتوا استعمار کی آگ ان کے دروازوں پر بھی دستک دے رہی ہوگی، تب انہیں یاد آئےگا کہ کچھ دیوانے اسی آگ کو قبل ازوقت بجھانے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دلاتے تھے۔
[email protected]