
مضامین و مقالات
حماس کی ساری شرطوں کو مانتا جا رہا ہے اسرائیل۔
مشرف شمسی
لبنان کے محاذ پر اسرائیل نے اپنی سرگرمی بڑھا دئ ہے اور ایران کے ساتھ جنگ کے خطرے کو دیکھتے ہوئے غزہ میں حماس جو شرط اسرائیل کے سامنے رکھ رہا تھا اس میں جنگ بندی کے علاوہ سبھی شرطوں کو خاموشی کے ساتھ پورا کرتا جا رہا ہے ۔رفع پر فلحال حملھ اسرائیل نے معطل کر دیا ہے ۔ساتھ ہی غزہ میں سبھی افواج کو اسرائیل نے واپس بلا لئے ہیں صرف تین ہزار اسرائیلی فوج غزہ میں موجود ہیں جو شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان اسرائیلی افواج نے جو سڑک بنوائی ہے اسکی حفاظت پر مامور کیے گئے ہیں ۔اسرائیلی افواج کا یہ بھی کام ہے کہ بڑی تعداد میں شمالی غزہ کے پناہ گزین جو اس وقت جنوبی غزہ میں رہ رہے ہیں وہ ایک بار پھر شمالی غزہ میں واپس نہ آ جائے۔حالانکہ اسرائیل نے ہر ایک دن ایک خاص تعداد میں فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں آنے کی اجازت دے دی ہے ۔اس کے علاوہ غزہ میں کھانا اور ادویات پہنچتا رہے اس کے لیے تین جانب سے سرحدیں کھول دی گئی ہیں ۔حالانکہ سات اکتوبر کے پہلے جیسے ٹرک کی تعداد غزہ میں نہیں جا پا رہی ہیں لیکن پھر بھی چار سو سے پانچ سو ٹرک روزآنہ غزہ پہنچ رہی ہیں ۔اسلئے غزہ میں اب بھکمری جیسی صورتحال نہیں ہے ۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے سے جن عام فلسطینیوں کو اسرائیلی افواج نے گرفتار کیا تھا اُنہیں ہر ایک دن سو دو سو کو رہا کرتا جا رہا ہے ۔
ہاں غزہ میں اسرائیلی ہوائی بمباری جاری ہے لیکن بمباری کی شدّت میں کمی ضرور ہوئی ہے ۔ساتھ ہی غزہ میں مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد بھی روز کے حساب سے کم ہوئی ہے ۔حماس اسرائیل کے تین ہزار افواج جو غزہ میں بچے ہیں اس اسرائیلی افواج پر مسلسل حملے کر رہا ہے ۔ہو سکتا ہے آنے والے کچھ دنوں میں اسرائیل بچے ہوئے اپنے فوجیوں کو بھی اسرائیل واپس بلا لے۔
آخر حماس کا اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے کی شرطیں کیا رہی ہیں۔پہلی شرط پوری جنگ بندی جو اسرائیل نہیں مان پا رہا ہے ۔اگر جنگ بندی کی شرط اسرائیل قبول کر لیتا ہے تو اسرائیل اپنے کسی ہدف کو پورا کئے بنا حماس کی شرط کو ماننے پر مجبور ہوا کہا جائے گا ۔مطلب اسرائیل کی شکست مانی جائے گی ۔اسرائیل اس شرط کو اب تک ماننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔لیکن ساتھ ہی غزہ سے آہستہ آہستہ اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا ہے ۔حماس کی ایک اور شرط تھی کہ غزہ میں کھانے پینے اور ادویات کی سہولیات کو بحال کیا جائے۔غزہ میں انسانی امداد شروع ہو چکی ہے ۔جنگ کے دوران عام اور ہے قصور فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُسے رہا کیا جائے۔قیدیوں کی بھی رہائی شروع ہو چکی ہے۔لیکن حماس نے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا ہے جس سے اسرائیل کو راحت ملے یعنی اسرائیل کے کسی بھی قیدی کو حماس نے رہا نہیں کیا ہے ۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ اسرائیل کی حکمت عملی ہے یا اس لمبی لڑائی کی وجہ سے اسرائیل کے لوگوں کی ہمت جواب دے رہی ہے ۔کیونکہ اسرائیل پر چہار جانب سے حملے ہو رہے ہیں ۔سائرن کی مسلسل آواز سے اسرائیلی سہمے ہوئے ہیں ۔اسرائیلیوں کو اس طرح کی مخالف حالات میں رہنے کی عادت نہیں ہے ۔ایسے میں اسرائیلی حکومت پر شدید دباؤ ہے کہ قیدیوں کو رہا کرائیں اور کسی طرح جنگ بند کرائیں تاکہ اسرائیل میں زندگی معمول پر آ سکے۔
ایک جانب اسرائیل حماس کو دہشت گرد تنظیم بتاتا رہا ہے اور دوسری جانب اسی حماس سے قیدیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔حماس غزہ کے فلسطینیوں کی شدید مشکلات کے باوجود مزاحمتی کاروائی میں اپنے کو برتر ثابت کر چکا ہے ۔اسرائیل کے سامنے حماس کی مزاحمت کا کوئی جواب نہیں ہے۔اسلئے اسرائیل چاہ کر بھی حماس کی جنگ بندی کی شرط کو نہیں مان رہا ہے ۔لیکن اسرائیلی وار کیبنیٹ کی میٹنگ میں وزیر دفاع کا یہ کہنا کہ مغربی کنارے سے یہودی آباد کاروں کو خالی کرایا جائے حالانکہ وزیر دفاع کی اس بات کی وزیر داخلہ نے مخالفت کی ۔لیکن اسرائیل کے وزیر دفاع اور وزیر داخلہ دونوں الٹرا رائٹ ہیں اسکے باوجود وزیر دفاع کا مغربی کنارے سے یہودی آباد کاروں کو خالی کرانے کی بات سامنے آنا اس بات کی علامت ہے کہ اندر خانے بہت کچھ چل رہا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے تیور اب پہلے جیسا سخت نہیں ہے۔لیکن اُسے اس مسئلے سے باہر نکلنے کا راستہ نظر نہیں آ رہا ہے ۔اسرائیل بری طرح ایران کے جال میں پھنس چکا ہے اور اب ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کو قبول کیے بنا اسرائیل اس مکر جال سے باہر نہیں آ سکتا ہے ۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائل 9322674787