مضامین و مقالات

چندے کا اعلان یوں کیجیے

چند روز پہلے میں اس بارے میں غور کر رہا تھا کہ لوگ علما کو حقیر کیوں سمجھتے ہیں ؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟ نیز یہ کہ تاریخی طور پر معاشرے میں اس طرز عمل کا وجود کب ہوا ؟

اس غور و خوض کے نتیجے میں مجھے کچھ باتیں سمجھ میں بھی آئیں۔ اسی دوران مجھے اپنے واٹس ایپ پر ایک اعلان نما مختصر سی تحریر ملی ، جو دہلی کے کسی "ممتاز احمد قاسمی صاحب” کی لکھی ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا پر یوں گردش کرتی تحریروں اور مضمونوں کی طرف ، میں عموما کم ہی دھیان دیتا ہوں ؛ لیکن اس تحریر کا عنوان دیکھ کر ، میں گویا اس کی جانب کھنچ سا گیا۔
عنوان تھا : "مدارس کے چندے کا اعلان” ، اس تحریر میں مذکورہ قاسمی صاحب نے بتایا تھا کہ اہل مدارس چندے کا اعلان کس طرح کرتے ہیں ، اور یہ کہ کرنا کس طرح چاہیے۔
فی الحال آئیے ،
قاسمی صاحب کی تحریر سے استفادہ کرتے اور چندے کے اعلان کا طریقہ جانتے ہیں۔
قاسمی صاحب لکھتے ہیں :
"نماز کے بعد مساجد میں مدارس کے چندے کا اعلان عموما اس طرح ہوتا ہے : ‘میں مدرسہ جامعہ اسلامیہ عربیہ … سے حاضر ہوا ہوں۔ مدرسے میں غریب و یتیم بچے پڑھتے ہیں۔ ان کے قیام و طعام وغیرہ کی ضروریات کا مدرسہ ہذا کفیل ہے ، جو آپ لوگوں کے چندے سے پوری کی جاتی ہے ؛ لہذا زکوة ، فطرہ ، صدقہ اور خیرات سے مدرسے کا تعاون فرمائیں۔”
آگے لکھتے ہیں :
"یعنی مدرسے کا اعلان اس طرح کیا جاتا ہے ، جس سے مدرسے کا غریب ہونا اور پڑھنے والے بچوں کا یتیم ہونا ثابت ہو جاۓ۔”
آگے دیکھیے ، کتنا اچھا تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
"اس طرح کے اعلان مدرسے کو لوگوں کی نگاہ میں ایک "غریب خانے” کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ، اور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس میں ایسے لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں ، جن کو کھانا ، کپڑا اور دیگر سہولیات میسر نہیں۔ جن کو دنیا کمانا نہیں آتا ؛ کیوں کہ ان کے پاس اسباب نہیں تھے ؛ اس لیے انہوں نے اپنے بچے مدرسے میں بھیج دیے ، اور وہ ہمارے دیے ہوئے صدقہ خیرات پر پل کر اپنی غربت کا علاج کرتے ہیں۔ پھر اسی ذہنیت کی وجہ سے مال دار لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں تعلیم دلانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کی وجہ یہی اعلان ہیں ، جنہوں نے مدرسے کو عوام کی نظر میں "یتیم خانہ” بنا کر رکھ دیا ہے!”
اس کے بعد قاسمی صاحب نے اپنی طرف سے تین سطروں پر مشتمل ایک اعلان تحریر کیا ہے ، اور امید ظاہر کی ہے کہ اگر مذکورہ بالا انداز کے بجاۓ اس انداز سے اعلان کیا جاۓ ، تو لوگوں کے ذہنوں میں مدارس کا مثبت اور بہتر تصور قائم ہو سکتا ہے ، اس اعلان کے الفاظ مگر چوں کہ ذرا مشکل معلوم ہوتے ہیں ؛ اس لیے میں اس کو یہاں من و عن نقل کرنے کے بجاۓ ، اس میں تھوڑی بہت ترمیم و تسہیل کے بعد اس کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ، اور وہ ہے : "حضرات! ہم جامعہ اسلامیہ عربیہ … سے حاضر ہوۓ ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں۔ مدارس میں قوم کے نوجوانوں کو دینی علم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ ان مدارس سے دین کے خدام اور اسلام کے محافظ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مدارس ہماری آن بان اور شان بھی ہیں اور ہماری ضرورت بھی۔ ان مدارس کی تعمیر و ترقی اور ان کے تحفظ و بقا کی فکر کرنا ، ہم سب کی ذمے داری ہے ؛ لہذا اپنی ذمے داری کو پورا فرما کر اجر عظیم کے مستحق بنیے!”
یہ تو ایک نمونہ ہے۔ اگر آپ کا بھی چندے وغیرہ سے سابقہ پڑتا ہو ، تو آپ بھی اپنے طور پر اسی انداز کا کوئی بہتر سے بہتر اعلان بنا سکتے ہیں۔▪️

[ماہ نامہ صوت القرآن احمد آباد ، گجرات میں شائع شدہ]

 

🔹 محمد انصار ایم اے ❇️

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button