
سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو سازش کے تحت عدم تحفظ اور نفسیاتی دباؤ میں رکھ کرپسماندہ بنایا: نظرعالم
غربت، جہالت، گندگی، بیماری، بے روزگاری، احساس کمتری اور مایوسی مسلمانوں کی پہچان بنادی گئی ہے: بیداری کارواں
پٹنہ(پریس ریلیز)۔حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے۔ تمام حکومتوں نے ان کی پسماندگی میں اضافہ کرنے میں اپنا کردار نبھایا۔ سیاسی جماعتوں نے انہیں اپنے ووٹ بینک کے طور پر استعمال توکیا لیکن ان کی فلاح و بہبود کی بجائے تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر ان کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظرعالم نے کہا کہ مسلمانوں نے جن جماعتوں کو اپنے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچایا انہوں نے بھی انہیں طفل تسلی دینے اور سبز باغ دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ان کے تئیں دستوری ذمہ داریاں ادا کرنا تو کجا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلسل عدم تحفظ اور نفسیاتی دباؤ میں رکھ کر پسماندہ بنانے کی کوشش کی گئی جس کے سبب وہ زندگی کے ہر میدان میں پیچھے ہوتے چلے گئے ہیں یہاں تک کہ ان کی حیثیت درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ ان کے اندر احساس محرومی اور شکست خوردگی نے اس طرح گھر کرلیا کہ وہ اپنی اور اپنی نسلوں کے مستقبل سے مایوس نظر آنے لگے۔ غربت، جہالت، گندگی، بیماری، بے روزگاری، احساس کمتری اور مایوسی مسلمانوں کی پہچان بنادی گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ترقی کی ہر راہ مسلمان بستیوں اور آبادیوں کو چھوڑ کر دور سے ہی گذر جاتی ہے۔نظرعالم نے مزید کہا کہ جیلوں میں آج بھی سب سے زیادہ ہمارے نوجوان بند ہیں اور بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔فساد اور دہشت گردی کے نام پر جھوٹے مقصدمے میں الجھاکر ہمارے نوجوانوں کے مستقبل کو برباد کیا جارہا ہے۔ مآب لنچنگ کے نام پر نہ جانے کتنے بے قصوروں کا قتل عام کیا گیا۔ کتنے لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلایا گیا۔ آج بھی ہمارے یہاں نہ اچھی تعلیم کا نظم ہے اور نہ ہی روزگارکیلئے کوئی ٹھوس اقدامات کئے جارہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر اہل خانہ کی پرورش کے لئے ہزاروں ہزار کیلومیٹر دور روزگار کی تلاش میں در در بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ اس کا بھی سیدھا نقصان ہمارے لوگوں کو سیاسی طور پر اٹھانا پڑتا ہے۔ بیشتر لوگوں کے باہر رہنے کی وجہ کر جب بھی انتخاب آتا ہے تو ووٹ فیصد ہمارا سب سے کم ہوجاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ہم ووٹ تو تھوک میں دیتے ہیں لیکن ہم ان سے سوال نہیں کرتے۔ چند نام نہاد مسلم لیڈران جو انتخاب کے وقت آکر سبزباغ دکھاتے ہیں، ہمارا تھوک ووٹ لیتے ہیں اورہمارے مسائل حل نہیں کرتے ہیں ایسے غداروں سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ قوم کا تھوک ووٹ بٹورنے کے ایسے ہی نام نہاد مسلم لیڈران اپنی پارٹی میں عہدہ حاصل کر اپنی دُکانداری چلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں، کچھ دنوں تک استعمال کرنے کے بعد ایسے ہی لیڈران کو پارٹی بھی صرف جھولا جھنڈا اٹھانے تک محدود کردیتی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا اور آنے والے انتخاب میں اپنے ووٹ کوضائع ہونے سے بچاناہوگا۔ جب تک ہم سوال نہیں کریں گے، اپنے حقوق کی بات نہیں کریں گے، ہم اپنے نوجوانوں کے مستقبل کی بات نہیں کریں گے، ہم اپنے اوپر تھوپے گئے غلط قانون کو ہٹانے کی بات نہیں کریں گے، ہم اپنی نسلوں کی بہتر تعلیم کیلئے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی ادارہ مسلم بستیوں میں کھولنے کیلئے حکومت پر دباؤنہیں بنائیں گے، روزگار کے لئے بات نہیں کریں گے تب تک ہمارے حالات نہیں سدھرنے والے ہیں۔ ہم صرف ووٹ دینے کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی کسی پارٹی کو ہرانے جتانے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔ ہمارے مسائل پر جو پارٹیاں سنجیدگی سے غور کرے گی، عملی جامہ پہنائے گی، مناسب سیاسی حصہ داری دے گی اُس طرف ہم ضرور جائیں گے لیکن ہمیں اس کے لئے آواز بلند کرنی ہوگی۔ مردم شماری کے مطابق سیاسی حصہ داری کے لئے پارٹیوں اور حکومتوں پر دباؤ بنانا ہوگا۔ آخر ہم کب تک رونا روتے رہیں گے کہ فلاں نے یہ نہیں دیا وہ نہیں دیا، جب تک ہم مضبوطی سے ان کے سامنے سوال نہیں رکھیں گے تب تک کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔اگر ہم اب بھی نہیں جاگے تو یاد رکھیں ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کوسیں گی۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر ہم اپنے ووٹ کی طاقت کو پہچانتے ہوئے نیتاؤں کے ساتھ ساتھ خودکوسیکولر بتانے والی سیاسی جماعتوں سے سیاسی حصہ داری اور ہمارے مسائل کیسے حل ہوں اس کے لئے کھل کر باتیں کی جائیں تبھی ہمارے مسائل حل ہوپائیں گے۔ گنگی قومیں کبھی آگے نہیں بڑھتیں اور نہ ہی اس کی نسلیں آگے کچھ کرپاتی ہیں۔