
وقت رہتےدعوت اسلام الی الکفار نہ کرنے سے، ایک وقت کفار کے ہاتھوں مسلمان مغلوب چھوڑ دئیےجاتے ہیں
ترجمہ و ترسیل
ابن بھٹکلی
ہمارے ایک انتہائی مخلص بزرگ بھائی عبد الرشید صاحب حیدرآبادی جو نصف صدی سے حرمین شریفین کی خدمت میں مصروف ہیں، تبلیغی جماعت سے قدیم تعلق رکھتے ہیں، اس مرتبہ تشریف آوری کے موقع پر انہوں نے ایک عجیب واقعہ سنایا، جب وہ کئی سال پہلے ازبکستان جماعت میں تشریف لے گئے تھے، تو وہاں ایک بزرگ سے ان کا تعارف کرایا گیا، اس وقت ان کی عمر اسّی سے متجاوز تھی، انہوں نے جماعت کے احباب کو مخاطب کرکے فرمایا: ایک زمانہ تھا یہ علاقہ مسلمانوں کا علمی و روحانی مرکز سمجھا جاتا تھا، امام بخاری و ترمذی یہیں پیدا ہوئے، بڑے بڑے مشائخ پیدا ہوئے، یہاں کا معمولی شخص کہیں اور جاتا تو اس کو امام بنایا جاتا مگر پھر "اشتراکی انقلاب” آیا۔ وہ کہنے لگے کہ مجھے یاد ہے چوراہے پر ہماری بیویوں بچیوں کو جمع کیا گیا، اور ان کو حکم ہوا کہ وہ برقع اتار کر اپنے ہاتھ سے ان میں آگ لگائیں، ورنہ ان کو آگ میں ڈال دیا جائے گا، میری اہلیہ تیار نہ ہوئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو آگ میں ڈال دیا گیا، میں نے بچیوں سے کہا کہ برقع اتار کر آگ لگادو اور گھروں میں داخل ہوجاؤ، وہ شریف بچیاں برقع اتار کر گھروں میں داخل ہوئیں تو ان کے جنازے ہی باہر نکلے، وہ بزرگ بولے؛ جانتے ہیں حالات کیوں خراب ہوئے؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم نے یہاں کی غیر مسلم آبادی کو نظر انداز کردیا، ہم نے ان میں کام نہیں کیا، پھر انہوں نے کہا کہ تم ہندوستان جاکر میری وصیت پہنچادینا کہ ابھی مسلمانوں کے پاس موقع ہے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں، غیروں کے سامنے اسلامی اخلاق کا نمونہ پیش کریں اور ان میں کام کریں، ورنہ خدانخواستہ ہندوستان میں بھی وہی حالات نہ پیدا ہوجائیں جو یہاں ازبکستان میں ہیں۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے برما کے مسلمانوں کو بھی اسی خطرہ سے آگاہ کیا تھا کہ اگر غیروں میں کام نہ ہوا تو وہ دن آنے والے ہیں کہ زندگی تنگ ہوجائے گی، ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے اب یہی راستہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق سے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں، اور اسلام کا نظام اخلاق ٗ ایمان کی طاقت اور یقین کے ساتھ برادران وطن کے سامنے پیش کریں، اور ہر ضروری اور اہم کام سے پہلے اس کو اہم سمجھیں کہ یہ ہمارا اخلاقی فریضہ بھی ہے، دینی فریضہ بھی، یہی ہمارے تحفظ کا بھی راستہ ہے اور یہی دعوت دین کا سب سے محفوظ، مؤثر اور طاقتور قدم ہے۔
مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ