مضامین و مقالات

اردو کا اگلا قاری کون؟؟

۔۔۔۔۔ اشفاق عمر، مالیگاؤں

مختلف گوشوں سے ہمیشہ ہی یہ آوازیں اٹھتی رہی ہیں کہ اردوزبان ختم ہورہی ۔ اردو کی بقا و فروغ کے لیے مختلف تجاویز بھی پیش کی جاتی رہی ہیں جن میں سب سے زیادہ یہ تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ اردو کو بچانے کے لیے اس کا رسم الخط بدل دیا جائے یا دیوناگری کردیا جائے۔
اس موضوع پر اردو کے نام نہاد محبان اور خیرخواہوں نے بھی ہمیشہ ہی بھانت بھانت کی تجاویز پیش کی ہیں۔

اردو زبان کے تعلق سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ صارفیت اور بے شمار دیگروجوہات کے زیر اثر اردو زبان سے متعلق ابہام کی ایک موثر فضا قائم کرنے کی پوری کوشیں کی جاتی رہی ہے اور یہ کوششیں کامیاب بھی ہورہی ہے۔

مگر اردو زبان بھی بہت سخت جان ہے۔ نامساعد حالات میں اپنے وجود کو قائم رکھنا اور بدلتے وقت میں اپنے آپ کو سمو لینا اس کی خاص خوبی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ آج عالمی پیمانے پر اردو زبان پھل پھول رہی ہے اور اس زبان نے اپنی بقا کے لیے نئے جزیرے تلاش کرلیے ہیں۔

اردو کی بقا سے متعلق یہ موضوع کافی وسیع ہے۔ اس مقام پر ہم اردو زبان کے تحفظ، فروغ اور بقا سے متعلق عنوانات میں سے صرف ایک عنوان پر بات کرنا چاہتے ہیں جس کا تعلق شعبۂ تعلیم سے ہےاور وہ عنوان ہے ۔
*اردو کا اگلا قاری کون ؟؟؟*

صارفیت کے اس دور میں انگریزی زبان کو سماج میں مرتبہ اور شان کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال تیار کی گئی ہے کہ سماج کا ایک بڑا طبقہ انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کو زندگی میں ترقی پانے کا واحد ذریعہ مان بیٹھا ہے۔ اس ماحول اور رجحان کوتیار کرنے کے بعد انگریزی ذریعۂ تعلیم کی چمک دمک کے ذریعے والدین کے جذبات کا مکمل طور پر استحصال کیا جارہا ہے۔

دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم مادری زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں مگر پروپیگنڈہ کا شکار والدین اپنے بچوں کو مادری زبان (اردو) کے فیوض سے محروم کرتے ہوئے انہیں ’’آدھا تیتر، آدھا بٹیر‘‘ بنانے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔
مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان کے اسکول میں بچے کو داخل کرنے کے عمل پر ہم نے ایک جگہ یہ تبصرہ پڑھا ہے :
*’’روشن ’مستقبل ‘کی آس میں بچوں کا ’آج‘ قتل نہ کریں۔‘‘*

کسی بھی زبان کا زوال اس وقت شروع ہوجاتا ہے جب اس زبان کے بولنے والے دوسری زبانوں کے ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرنے لگتے ہیں۔
اردو والے یہی کررہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم کےاردو اسکولوں میں داخل نہیں کررہے ہیں۔ اردو کی بستیوں میں اردو والے ہی اس زبان سے سوتیلا سلوک کررہے ہیں ۔
اس کے لازمی اثرات بھی سامنے آچکے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ ماضی میں اردو کا گڑھ کہلانے والے کئی علاقوں میں اب اردو زبان میں لکھے بورڈ بھی نظر نہیں آتے نہ ہی وہاں سے اردو اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں۔

*انسانوں کی ہمہ جہت معیاری ترقی و نشونما میں مادری زبان (اردو) کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔*
اسی کے ساتھ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ:
*کسی بھی زبان کی بقا اور اس کے فروغ کا تعلیم کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔*

*ہماری بقا اسی میں مضمر ہے کہ ہم مادری زبان (اردو) میں معیاری تعلیم کے فروغ کی مکمل منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس پر عمل کریں۔*

اسی طرح معیارِ تعلیم کی عمومی پستی کی وجہ سے بھی طلبہ اپنی مادری زبان پر مکمل عبور نہیں حاصل کرپاتے۔
کسی بھی ذریعۂ تعلیم کے اسکول ہوں، کسی بھی سطح کے اسکول ہوں، وہ معیار تعلیم کی پستی کے مسائل سے جوجھتے ہی رہے ہیں۔
مگر صرف اردو اسکولوں کے معیارِ تعلیم کے مسائل ہی ہمیشہ سامنے آتے رہے ہیں یا سامنے لائے جاتے رہے ہیں۔

*معیارِ تعلیم کی پستی اور دیگر بہت سارے مسائل کا شکار قوم نے تعلیم کے شعبے میں طویل منصوبہ بندی کی اہمیت و افادیت پر کبھی دھیان نہیں دیا۔*

آج یہ شکایت عام ہے کہ ہائی اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کا مادری زبان (اردو) کا علم بھی بہت کم ہوتا ہے۔ وہ ایک مکمل جملہ بھی درست طریقےسے نہیں لکھ سکتے۔ خطوط نویسی، مضمون نویسی، انشائیہ نگاری وغیرہ صلاحیتوں پر عبور حاصل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی۔ مادری زبان (اردو) پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے وہ دیگر مضامین میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔

*اردو والے اردو زبان کے معیاری ابتدائی اسکولوں میں ہی اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کا بندوبست کریں، ان کی تعلیمی ترقی پر گہری نظر رکھیں، اسکولوں کے معیارِ تعلیم سے متعلق فکرمند رہیں تو بچوں کی ہمہ جہت معیاری تعلیم و تربیت کی راہیں ہموار ہوں گی اور ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوجائےگا ۔*

👈 *ہمارا اصرار ہے کہ:*

اردو زبان کے شعرا و ادبا شعر و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ
*ادب اطفال* اور
*شعبۂ تعلیم*
(بالخصوص تعلیمی موضوعات پر رہنما کتابیں تیار کرنا)
پر بھی دھیان دیں ۔

ایسا ہوا تو سماج میں ہمارا تعلیمی معیار معیاری اور روزافزوں ترقی کرنے والابن جائے گا۔
اسی کے ساتھ یہ بے بنیاد شکایت بھی ختم ہونے لگے گی کہ اردو زبان کا روزی روٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ

*اردو زبان کے اگلے قاری بھی تیار ہوتے رہیں گے اور ایک طویل عرصے تک اردو زبان قائم و دائم رہے گی۔*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👆👆👆
*ششماہی خِرمن انٹرنیشنل 3*
(بین الاقوامی کتابی سلسلہ)
میں میرا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ نظرِ ثانی کے بعد آپ کی معتبر اوراعلیٰ بصیرت کے سپرد کررہا ہوں۔

*اشفاق عمر*
ثمر اکیڈمی، مالیگاؤں
7385383867

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button