مضامین و مقالات

یہ بتا قافلہ کیوں لٹا………

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ : 8969648799
امریکہ کے تجارتی ریسرچ فرم ہنڈن برگ کی اڈانی کے خلاف پول کھول رپورٹ کے منظر عام پر آتے ایک بھونچال سا آگیا ہے ۔ حکومت بظاہر چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہی ہے ، لیکن ایسا ہے نہیں ،پریشانی اس لئے بڑھی ہوئی ہے کہ معاملہ دوست کا ہے ۔ جس کا اثر ابھی پارلیامنٹ کے بجٹ سیشن میں دیکھنے کو ملا ۔ اس اجلاس میں کئی ایسی انہونی اور انوکھی باتیں سننے کو ملی ہیں کہ ہر شخص حیران و پریشان ہے ۔ توقع تھی کہ ملک کے ذمّہ دار عہدہ پر فائز شخص ملک کے اس مالی بحران پر بجٹ سیشن میں اپنی ذمّہ داری کو پورا کرتے ہوئے ایسا جواب دینگے کہ ملک کے عوام کسی حد تک مطمئن ہو جائیں ۔

راہل گاندھی کے سات سوالات میں صرف ایک سوال کہ ’’ گوتم اڈانی 2014 ء میں امیروں کی فہرست میں 609 ویں نمبر پر تھا وہ وزیراعظم ہند نریندر مودی کی دوستی یاری سے کچھ ہی برسوں میں دوسرے نمبر پر کیسے پہنچ گیا;238; ‘‘ ہنڈن برگ نے جو کچھ انکشاف کیا ہے ، اس میں کتنی صداقت ہے ;238; سوال تھا 2014 سے 2022-23 میں حیرت انگیز بلکہ ناقابل یقین حد تک گوتم اڈانی کے دولت مند بننے کا ۔ لیکن ایسا لگا جیسے وزیراعظم نے راہل گاندھی اور دوسرے حزب مخالف ممبران پارلیامنٹ کا سوال سنا ہی نہیں اور سنے بغیر ہی وہ شروع ہو گئے کہ 2004 سے2014 ء میں ملک کے اندر کس قدر بد عنوانیاں ہوئیں ۔ بتانے لگے کہ وہ دہائی سب سے زیادہ گھوٹالوں کی دہائی رہی ۔ کشمیر سے کنیا کماری تک دہشت گردی کا سلسلہ جاری تھا ۔

ہر شہری غیر محفوظ تھا ۔ دنیا میں ملک کی آواز اتنی کمزور تھی کہ سننے کو کوئی تیار نہیں تھا ۔ انھوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ میں انتظار کرتا ہوں کہ کوئی ہم پر تنقید کرے کیونکہ جمہوریت میں تنقید کی اہمیت ہوتی ہے ۔ مگر انھوں (حزب مخالف )نے یہ موقع بھی گنوا دیا ،مجھے گالیاں دینے میں ۔ وزیراعظم نے اپنی اس ’’تاریخی‘‘ تقریر میں پارلیامنٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ انھیں ایک سوَ چالیس کروڑ ہندوستانیوں کا انھیں آشیرواد حاصل ہے ،جو ان کے لئے ’’سرکچھا کوچ ‘‘ ہے ۔

اس پوری تقریر میں انھوں نے ایک باربھی اپنے دوست اور ملک کا نام ’’روشن ‘‘ کرنے والے گوتم اڈانی کا نام لینے کی زحمت نہیں کی ۔ کم از کم چین کی در اندازی پر جو’’ تاریخی جملہ‘‘ ادا کیا تھا ۔ ایسا ہی جملہ ادا کر تے ہوئے اپنے ’’اندھ بھکتوں ‘‘ کو تو مطمئن کر دئے ہوتے کہ جب مودی جی نے کہہ دیا ہے کہ اڈانی نے کسی طرح کا گھپلہ نہیں کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اڈانی نے کوئی گھوٹالہ نہیں کیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ ان کے اندھ بھکت بھی اسی طرح کے کسی جملے کا انتظار کرتے رہ گئے ۔

وزیراعظم کی اس بات سے پل بھر کے لئے ہم سب متفق بھی ہوجائیں کہ 2004 ء سے2014 ء کے درمیان کی دہائی گھوٹالوں کی دہائی رہی ۔ لیکن حضور یہ تو بتائے کہ 2014 ء کے بعد جے چند شاہ سے لے کر بی جے پی کے تمام ’’لیڈروں ‘‘ کو وہ کون سا جادوئی چراغ حاصل ہوگیا کہ ہر کوئی دولت کے انبار لگا رہا ہے اور اس انبار سے انکم ٹیکس، ای ڈی ، سی بی آئی وغیرہ جیسے شعبوں کو کوئی شکایت نہیں ہے ۔

انتہا تو یہ ہے کہ بجٹ سیشن میں وزیر مالیات نے بھی ملک کے اتنے بڑے گھوٹالے پر خاموشی اختیار کئے رہیں بلکہ حزب مخالف کے ایک ممبر نے اس گھوٹالے کی یاد دہانی کرانے کی کوشش کی تو ان کی نصیحت تھی کہ پہلے ڈیٹول سے مُنھ صاف کرکے آوَ ،یعنی اڈانی کی بد عنوانی کا ذکر کرنے سے قبل ممبر پارلیامنٹ کو اپنا چہرہ ڈیٹول سے صاف کرنا ضروری ہے ۔

المناک حقیقت یہ ہے کہ اب پارلیامنٹ کو بھی بہت ساری سرکاری ایجنسیوں کی طرح بے وقعت اور بے اثر ہی نہیں بلکہ یرغمال بنا لیا گیاہے ۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ راہل گاندھی جیسے کانگریس کے بڑے لیڈر کی پارلیامنٹ میں کہی گئی باتوں کو ریکارڈ سے حذف کر دیا جائے ۔ پارلیامنٹ پر سارے ممبران کا حق برابر کا ہے ۔ ممبران اگریہاں عوامی مشکلات کا ذکر نہیں کرینگے ، عوام کی اشک سوئی کی بات نہیں کرینگے تو کہاں کرینگے ۔

یہاں وہ مسئلہ کو اٹھائینگے اور ان کے تدارک کی بھی باتیں ہونگی ۔ لیکن افسوس حکومت اپنے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے ، صرف من مرضی کی باتیں کی جا سکتی ہیں ۔ اب تو جیسی خبریں آرہی ہیں کہ راہل گاندھی کے پارلیامنٹ میں اڈانی پر سوال پوچھے جانے کی پاداش میں مراعات شکنی کی نوٹس دی جانے والی ہے ۔ جس کے جواب میں راہل گاندھی نے کہا ہے کہ جب معاملہ اتنا متنازعہ ہے تو پھر حکومت کو مشترکہ پاریمانی کمیٹی پر اعتراض کیوں ہے ۔

پارلیامنٹ کے اندر ہونے والی غیر جمہوری اور غیر آئینی حرکت پر اپنی خفگی بلکہ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس صدر اور سینئر لیڈر ملکا رجن کھرگے نے شدید تنقید کی اور کہا کہ اس سیشن میں وزیر اعظم نے صرف انتخابی تقریر کی ، حزب مخالف کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا ۔ پارلیامنٹ میں آزادیَ اظہار رائے پر قدغن کی کوشش گئی، تقریر کے کئی حصوں کو حذف کر دیا گیا ۔ یہاں تک کہ اڈانی کے نام لیا جانا بھی گوارہ نہ ہوا ،

ہنڈن برگ کی رپورٹ پر مشترکہ پارلیامانی کیمیٹی کے مطالبہ کو بھی ریکارڈ سے خارج کر دیا گیا ہے ۔ کانگریس لیڈر اور ترجمان جئے رام رمیش بجٹ سیشن میں ہنڈن برگ پر اٹھائے گئے سوال پر وزیر اعظم کی چُپی پرطنز کیا اور تقریر کے دوران انھیں اپنی تعریف میں آسمان زمین کے قلابے ملانے کے مترادف قرار دیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم نے اپنی پوری تقریر کے دوران صرف اپنی حصولیابیوں کو گناتے رہے اور یہ بھی کہا کہ میں اکیلا سب پر بھاری ہوں اور یہ بھی ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت کے باعث ہی دنیا میں اس ملک کے وقار میں اضافہ ہوا ہے ۔

اب اس خوش فہمی کو کیا کہا جائے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ ہو یا پھر بی بی سی لندن کی گجرات سانحہ پر آنے والی فلم سے ملک اور ملک کے وزیر اعظم کا وقار بڑھا ہے تو اسے کم از کم اندھ بھکت تو ضرور ہی قبول کرینگے ۔ وزیر اعظم ہندوستانیوں کے جن ایک سوَ چالیس کروڑ عوام کے آشیرواد اور ان کے ذریعہ دی جانے والی انھیں ’’سرکچھا کوچ‘‘( حفاظتی خول) کی بات کر رہے ہیں ۔ وہ عوام کس قدر پریشان ہیں اور کربناک زندگی گزار رہے ہیں ۔ کاش ایک پل کے لئے بھی یہ سوچتے ۔

اپنے دور اقتدار کی حصولیابی کا ذکر کرتے ہوئے کاش یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے کہ جس وقت یعنی 2014 ء میں عالمی سطح پرملک میں بھوک مری صرف 55 ویں نمبر پر تھا ان کے اقتدار میں ملک کی بھوک مری 121 کے مقابلے 107 ویں پائدان پر پہنچ گیا ہے ۔ ’’آشیرواد ‘‘ دینے والے اور سرکچھا کوچ بننے والوں میں سے نصف لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں سے ہی نصف تقریباََ 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دے کر کسی طرح زندہ رکھنے کی کوشش کیا جارہی ہے ۔

یہ کسی بھی لحاظ سے حصولیابی نہیں ہے بلکہ کسی بھی ملک کے سربراہ کے لئے شدید ناکامی ہے ۔ وزیراعظم مودی جی بجٹ سیشن میں مسلسل اپنی حصولیابی گناتے رہے اور کانگریس کی ناکامیوں کا موازنہ 2004 سے2014 تک کا کرتے رہے ۔ کاش کہ وہ ایک نظر اس انڈیکس پر بھی ڈال لیتے کہ 2014 ء کے بعد سے ان کے دور اقتدار میں ملک کی حالت کس قدر بد سے بدتر ہو گئی ہے ، یہ چند اعداد و شمار ملاحظہ کریں ۔ صحت کے معاملے میں ملک 2014 ء میں جہاں 85 پر تھا آج 146 ویں نمبر پر ہے ، انسانی آزادی 2014 ء میں 106 پر تھا آج 150 ویں نمبر پر ہے ،

ماحولیاتی تحفظ میں ملک 2014 ء میں 155 نمبر پر تھا آج 180ویں مقام پر آنسو بہا رہا ہے ، اسی طرح بار بار جمہوریت کی دوہائی دینے والے یہ بھی سن لیں کہ 2014 ء میں ملک کی جمہوریت کو33واں مقام حاصل تھا ،وہ آج 93نمبر پر پہنچ کر شرمسار ہو رہی ہے ، صحافتی آزادی کو تو یرغمال ہی بنا لیا گیا ہے ، جو آزادیَ صحافت 2014ء میں 140ویں مقام پر برقرار تھی وہ آج 180ممالک کے مقابلے 150 ویں نمبر پر گِر کر کراہ رہی ہے اور تو اورہمارا ملک اس وقت 1,31,100 ملین ڈالر کے قرض ڈوبا ہوا ہے ،ساتھ ہی ساتھ اگر فوربرس میگزین کی رپورٹ پر بھروسہ کیا جائے تو اس وقت مودی سرکار ایشیا کی سب سے کرپٹ حکومت ہے ۔ یہ ہے آپ کی حکومت کی حصولیابی کا بہت ہی چھوٹا سا نمونہ ۔ اب ایسے حالات میں بھی اگر یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ ان کی وجہ کر ہی اس ملک کا وقار بیرون ممالک میں بڑھا ہے تو اسے مضحکہ خیز ہی کہا جائے گا ۔ ملک اس وقت جس طرح انتشار ، خلفشار ، بد امنی ، منافرت ، بھوک ، غربت ، بے روزگاری کی جس طرح نا خوشگوار حالات ملک نبرد آزما ہے ، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔

پارلیامنٹ میں اصل سوال سے وزیراعظم کا راہ فراراختیار کئے جانے پر کئی طرح کے سوال تو کھڑا کرتا ہی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ سے نہ صرف ملک کی معیشت کی بربادی کی پول کھلی ہے بلکہ ملک کے کروڑوں لوگوں کا مالی استحکام متزلزل ہوا ہے، سرمایہ کاروں کو کئی لاکھ کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے ۔ ایل آئی سی اور اسٹیٹ بینک جیسے نہ جانے کتنے ادارے مالیاتی خسارے سے اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہے ہیں ، ملک کی شبیہ بھی داغدار ہورہی ہے ۔ ایسی حالت میں ہر جانب سے سوال کا طوفان کھڑا ہونا لازمی ہے ۔ ایسے وقت میں بے اختیار شہاب جعفری کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ

تو ادِھر ُادھر کی بات نہ کر ،یہ بتا قافلہ کیوں لٹا ;232; مجھے رہزنوں سے کوئی گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے

ملک کی معیشت اس وقت تباہی کے اس دہانے پر ہے جس پر گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ملک ماہرین اقتصادیات اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر اثر رکھنے والی کمپنیاں مثلاََ بلو مرگ ، ویلتھ فنڈ ، موڈیز وغیرہ کے ذریعہ اڈانی کی ریٹنگ کم کئے جانے اور خارج کئے جانے کی خبریں بھی مسلسل آ رہی ہیں ۔ بینکوں کے خالی ہوتے خزانے اور اس پر حکومت کے ’’خاص‘‘ لوگوں کے ذریعہ اربوں روپئے کے گھوٹالے ۔ ہنڈن برگ کے ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہیں اور پرتیں کھل رہی ہیں ، اس سے ہر شخص انگشت بدنداں ہے ۔ ابھی نہ جانے کتنی پرتیں کھلیں گی ، دیکھا جائے ۔ حیرت ہوتی ہے یہ جان کرکہ گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی اور ان کے قریبی معاونین نے چھوٹے ممالک میں درجنوں ایسی فرضی کمپنیاں بنا رکھی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔

سراسر یہ جعلی کمپنیاں ہیں جو کہ ایسے ممالک میں قائم کی گئی ہیں جہاں ٹیکس چوری کی جنّت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہی جعلی کمپنیاں اپنے ملک میں گوتم اڈانی کی کمپنیوں میں اربوں روپے کا سرمایہ لگاتی ہے ساتھ ہی ساتھ یہی کمپنیاں شئیر کی بدعنوانیوں میں بھی پوری طرح ملوث رہتی ہیں جو کہ اڈانی کی ایَما پر ہوتا ہے ۔ ہنڈن برگ کا یہ بھی الزام ہے کہ جس فرم سے گوتم اڈانی اپنے تجارتی کمپنیوں کا آڈٹ کراتے ہیں ،اس فرم میں صرف گیارہ لوگ کام کرتے ہیں جب کہ اڈانی کے تقریباََ دو سوَ تجارتی کمپنیاں ہیں ، جن میں وہ نہ جانے کتنے ہوائی اڈوں اور بندر گاہوں کے مالک ہیں ۔ حال ہی میں گجرات میں ادانی کی بندر گاہ پر بیرون ملک سے لائی جانے والی اربوں روپئے کی منشیات ’’غلطی‘‘ سے پکڑ میں آ گئی تھی ۔

اب ذرا تصور کیجئے کہ صرف گیارہ لوگ کس طرح اربوں کھربوں کا آڈٹ کرتے ہونگے ، یہ تو کوئی جادوئی کارنا مہ ہی ہو سکتا ہے ،یا پھر کسی جن کا کارنامہ ممکن ہے ۔ اڈانی کے ان تمام نقصانات کی بھرپائی کی طرح طرح کی کوششیں اندر ہی اندر کی جارہی ہیں ۔ اڈانی کی ساکھ بچانے اور دوسرے سرمایہ کاروں کے اندر اعتماد بحال کرنے کے لئے اپنے گودی میڈیا کو کروڑوں روپئے کے صفحہ اوّل پر پورے صفحہ کا رنگیں اشتہاردے کر ابھی ابھی لکھنوَ میں سہ روزہ گلوبل انوسٹرس سمٹ کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ جس کا افتتاح کرتے ہوئے وہاں بھی ’’بڑ ے بول‘‘ میں یہ اظہار کیا کہ ’’ہندوستان دنیا کے لئے امید کی نئی کرن ہے ‘‘ اور تو اور یہ بھی خواب دکھانے میں پیچھے نہیں رہے کہ’’ ہندوستان کا روشن مستقبل ہی دنیا کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔

‘‘ دراصل یہ سمٹ اور یہ انداز تخاطب کی وجہ ہے کہ بلو مبرگ نے بڑے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ’’اڈانی گروپ کے 108 ارب ڈالر کروڑ کے بحران کی وجہ کر عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے ‘‘ ۔ اب ایسے بدتر حالات میں بھی کوئی روشن مستقبل کی ضمانت دے تو اسے احمقوں کی جنّت کا باشندہ ہی کہا جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں برسراقتدار رہنے کی چاہت تو بہت ہے لیکن حکمرانی میں وہ مسلسل پچھڑتے جا رہے ہیں ۔ جس پر انھیں بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button