مضامین و مقالات

جواب برائے اپیل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ !

احساس نایاب شیموگہ ۔۔۔۔

محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

سوشیل میڈیا پر آپ کی اپیل موصول ہوئی، جس میں 15 ستمبر کے اہم عدالتی فیصلے کے حوالے سے پوری ملت سے دعاؤں، نماز حاجت، درود شریف، اور "حسبنا اللہ ونعم الوکیل” کی کثرت کی درخواست کی گئی ہے ۔۔۔۔

یقیناً اللہ سے رجوع، دعا اور توکل ہمارا دینی، ایمانی، اور روحانی ہتھیار ہے۔ اور ان شاءاللہ ہم ضرور دعا کریں گے اور دل سے اللہ کے حضور جھکیں گے ۔۔۔

مگر افسوس کے ساتھ ہمیں یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر ہماری ملی و سیاسی قیادت نے وقت پر اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے ادا کی ہوتیں، تو آج شاید ہمیں صرف دعاؤں کے سہارے نہ بیٹھنا پڑتا ۔۔۔
جب وقت تھا کہ میدان میں اترا جاتا، مؤثر قانونی اور سیاسی محاذ بنایا جاتا، عوام کو منظم کیا جاتا، تب ہماری قیادت نے ہمیں جلسوں، پریس کانفرنسوں، کالی پٹیوں، ہیومن چین اور بتی گل مہم تک محدود رکھا۔۔۔
افسوس یہ سب وقتی اور نمائشی اقدامات تھے ۔۔۔۔

نہ کوئی بڑی حکمتِ عملی، نہ مؤثر قانونی ٹیم، نہ سیاسی دباؤ، نہ میڈیا پلان ، بس رسمی بیانات اور وقتی مظاہرے ۔۔۔

معذرت کے ساتھ ہمارا یہ کہنا تلخ ضرور ہے، مگر سچ ہے کہ ہماری قیادت نے ملت کو جذبات میں الجھائے رکھا۔۔۔
جبکہ ملت کو لگا کہ کچھ ہو رہا ہے، مگر درحقیقت کچھ بھی ٹھوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
بلکہ سب فقط "دکھاوے” کی سطح پر رہا ۔۔۔ جیسے پانی کے اوپر جھاگ ہوتی ہے، جس کا شور تو ہوتا ہے، مگر وزن نہیں ۔۔۔۔

اور اب جب فیصلہ بس آنے والا ہے، تو قوم سے اپیل کی جا رہی ہے کہ بس دعائیں کریں۔۔۔
جی ہاں، دعائیں تو کریں گے، مگر
کیا ہماری قیادت کو یہ حق ہے کہ ہر بار ناکامی کے بعد ہمیں صرف "اللہ پر چھوڑ دینے” کا مشورہ دے؟؟؟

کیا ہمارے قائدین نے اپنی حیثیت، اور ملت کی امانت کا حق ادا کیا ؟؟؟

افسوس کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔
ہم نے یہ منظر بابری مسجد کے وقت بھی دیکھا تھا۔
اُس وقت بھی یہی قیادت تھی، یہی اندازِ اپیل تھا، یہی تسلیوں کی تھپکیاں تھیں اور پھر جو ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔۔۔
ہم اپنی بابری مسجد کھو بیٹھے۔
آج اذانوں کی جگہ گھنٹیاں بج رہی ہیں، اور اُن کی آوازیں روزانہ ملت کے دل میں شیشے کی کرچیاں بن کر پیوست ہو رہی ہیں۔۔۔

اُس وقت بھی آپ حضرات نے یہی کہا تھا کہ دعا کریں، صبر کریں، فیصلے کا انتظار کریں…
اور نتیجہ؟ کبھی نہ بھرنے والا صدمہ، زخم، بے بسی اور ذلت و رسوائی ۔۔۔۔۔

قائدین کو سوچنا ہوگا
کیا قیادت صرف تب یاد آتی ہے جب فیصلے دروازے پر ہوں؟
کیا ان کی ذمہ داری صرف جلسے کرنا، تصویریں کھنچوانا ، اخباری بیانات جاری کرنا ، اسٹیج و مائک کے لئے جھگڑنا اور بعد میں دعاؤں کی اپیل دینا ہے ؟؟؟

ہم بیشک دعا کریں گے کہ فیصلہ ملت کے حق میں آئے اور اس سے بڑھ کر یہ دعا کرتے ہیں کہ اب ہمیں وہ قیادت میسر آئے جو ملت کے درد کو صرف الفاظ سے نہیں، عمل سے محسوس کرے۔۔۔
ایسی قیادت جو وقت پر قدم اٹھائے، اور قوم کو بار بار مایوسی کے اندھیرے میں نہ دھکیلے۔۔۔

اللہ تعالیٰ سے ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق اور بقاء میں ہو
ورنہ ملت اسلامیہ ہند ان ذمہ داران کو اس مسلسل غفلت پر کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔۔
والسلام
احساس نایاب شیموگہ ۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button