
اسلامیات،افسانہ و غزلیات
کارپوریٹ کے ہاتھ میں جاتی نظر آ رہی ہے حکومت۔
مشرف شمسی
مودی سرکار کی معاشی پالیسی کا نتیجہ آہستہ آہستہ ملک میں نظر آنے لگا ہے۔درمایانی طبقے تقریباً ختم ہوتے جا رہے ہیں۔اب دو ہی طبقے غور سے سماج کو دیکھیں تو نظر آئیں گے وہ یا تو غریب ہیں یا امیر ۔درمایانی طبقہ جو تھوڑا بہت نظر آ رہا ہے وہ یا تو کارپوریٹ دفتروں میں بڑے عہدے پر کام کرنے والوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہے یا کچھ تجارت پیشہ لوگ ہیں جو جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی مار جھیلتے ہوئے ہانپ تو ضرور رہے ہیں لیکِن اِدھر اُدھر کر اتنا کما لے رہے ہیں کہ اُنہیں درمیانی طبقہ کا آدمی کہا جاسکتا ہے۔درمیانے طبقے میں وہ لوگ بھی ہیں جو مستقل سرکاری ملازمین ہیں جنہیں ایک لاکھ سے زیادہ کی تنخواہیں ہیں۔درمیانے طبقے کے جن تین کیٹیگری کا ذکر اوپر کیا ہوں اُنکی تعداد ملک میں تین سے پانچ فیصدی سے زیادہ نہیں ہے۔
کانگریس رہنماء راہل گاندھی نے ملک میں جب جی ایس ٹی نافذ کیا گیا تھا تو اس وقت انہوں کہا تھا کہ مودی حکومت دو ہندوستان بنا رہے ہیں ایک امیروں کا ہندوستان اور دوسرا غریبوں کا ۔آج اُنکی بات سچ ہوتی نظر آ رہی ہے۔
منہگائی آج کی تاریخ میں بے قابو ہو چکا ہے ۔یہاں تک کہ کھانے کی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔2014 سے پہلے جو دس روپیے کی وقعت تھی وہ اب سو روپیے کی بھی نہیں ہے ۔ایک جانب منہگائی آسمان چھو رہی ہے تو دوسری جانب لوگوں کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے ۔آج گھر کا ہر ایک فرد کام نہیں کرے تو رہنا اور کھانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔اب تک رہنے اور کھانے کی بات ہوئی ہے اور اس میں بچوں کی پڑھائی اور بیماری کا خرچ جوڑیں گے تو مہینے کا دو لاکھ کمانے والوں کی بھی حالت خراب نظر آ رہی ہے ۔خاص کر بچے ہوئے مڈل کلاس سر ڈھکتا ہے تو پیر کھلتی ہے ۔اچھے اسکول اور کالج میں بچوں کو پڑھانا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے ۔مڈل کلاس ہمیشہ اس خوف میں جیتا ہے کہ گھر میں کوئی بیماری نہ آ جائے اور گھر کی جو بھی جمع پونجی ہے وہ اسپتال میں خرچ ہو جائے یا پھر کہیں سے قرض اٹھانا پڑےگا جسے چکانے میں سالہا سال گزر جائیں گے ۔دراصل گھر کی ایک بڑی بیماری میں آدمی مڈل کلاس سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے ۔سرکار نے غریبوں کے لئے بہت سے میڈیکل اسکیمیں نکالی ہیں لیکِن وقت پر شاید ہی کوئی اسکیم کام میں آتے ہیں ۔ہاں مڈل کلاس میڈیکلیم نکالنے پر مجبور ہیں ۔سرکار اسپتالوں کی حالت ملک کے بیشتر حصوں میں خستہ ہیں ۔
لیکِن جب ہم سفر کی بات کرتے ہیں خاص کر ریل سفر کی بات جو اس ملک کے بیشتر آدمی کا سفر ہے تو سبھی طرح کی سہولیات پیسے والوں کو سامنے رکھ کر مہیّا کرائی جا رہی ہیں۔عام آدمی کے لئے ریل سفر مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے ۔دور دراز کے مسافروں کے لئے ریزرو ٹکٹ ملنے مشکل ہوتے ہیں۔لیکِن دلالوں سے
زیادہ پیسے دے کر کبھی بھی کسی تاریخ کا ٹکٹ حاصل کر سکتے ہیں ۔یعنی مودی حکومت دلالی ختم کرنے کی بات تو کرتی ہے لیکِن اس حکومت میں ایسا لگتا ہے کہ دلالوں کا بول بالا کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔
جس طرح سے مودی حکومت کام کر رہی ہے دو تین سالوں میں دو ہندوستان آپکو صاف صاف نظر آنے لگے لگا ۔آج کی تاریخ میں ممبئی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں نوّے فیصدی آبادی اپنے مہینے کی خرچ کے لئے جوجھتے نظر آ رہے ہیں ۔چاہے وہ ستتر لاکھ کے فلیٹ میں رہ رہا بندہ ہو یا پانچ کروڑ کے فلیٹ میں رہ رہا ہو۔
مودی سرکار مونوپولي ایکونومی چلاتی رہے گی تو ملک کے لوگ بد حال ہوتے جائیں گے ۔کارپوریٹ میں مقابلہ نہیں ہوگا تو عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا ۔مونوپولی ایکونومی میں کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں سارے پیسے جاتے نظر آ رہے ہیں جبکہ بیشتر غریب ہوتے جا رہے ہیں ۔اسلئے اُن سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے ملک کے لوگ ایک ایسے بھارت میں جلد داخل ہو رہے ہیں جہاں اسمارٹ شہر ہونگے اور اس شہر کے باہر غریبوں کی بڑی بڑی بستیاں ہونگی جو صبح اسمارٹ شہر میں کام کریں گے اور شام میں اس شہر کو چھوڑ دیں گے ۔حالانکہ پہلے سے شہر میں امیر بڑے بڑے بلڈنگوں میں رہا کرتے آ رہے ہیں لیکِن بلڈنگ سے تھوڑی دور پر غریب کی بستیاں بھی اب تک موجود ہیں لیکِن آنے والے دنوں میں ایسا نہیں ہوگا۔جھونپڑے کے بدلے بلڈنگ میں گھر تو مل رہے ہیں لیکن بلڈنگ کے منٹینس اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ کم آمدنی والے اُن مکانوں میں رہ نہیں پا رہے ہیں ۔آخر میں وہ لوگ فلیٹ فروخت کر دور دراز علاقوں میں جاتے نظر آ رہے ہیں ۔
موجودہ سرکار کچھ گنے چنے کارپوریٹ کے لئے سرکار چلا رہی ہے لیکِن آئندہ کچھ سالوں میں امریکہ کی طرح بھارت میں بھی کارپوریٹ ہی اپنی پارٹی بنا لے اور حکومت ہاتھ میں لے لیں تو مضحکہ خیز بات نہیں ہوگی۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787