اسلامیات،افسانہ و غزلیات

مہاراشٹرا جلگاؤں میں، عین سنت نبوی ﷺ کے مطابق نکاح

اپنے لڑکے کے لئے، لڑکی دیکھنے ماں باپ  دوپہر کے وقت، لڑکی کے گھر پہنچتے ہیں۔نہ صرف لڑکی پسند آتی ہے بلکہ، دونوں خاندانوں کے ذمہ دار،ایک دوسرے کے دینی اقدار سے متاثر ہوتے ہوئے، اور اللہ کے رسول ﷺ  کے فرمان "نکاح کو مسلم معاشرے میں اتنا آسان کرو کہ ہم میں سے کسی کو بھی زنا کرنے پر، نکاح کرنا آسان لگے”، اس پر تبادلہ خیال ہوتا ہے اور دونوں فریقین آپسی مشورے کے ساتھ، شادی کے لئے لڑکی دیکھنے آئے ماں باپ، بعد نماز عصر مختصر محفل درمیان نکاح مسنونہ پڑھتے ہوئے، اپنی بہو کو وداع کر، اپنے گھر لے جاتے ہیں۔”بارك الله فيك وبارك عليك وجمع بينكما فِي خَيْرٍ” "اللہ اس میں آپکو برکت عطا کرے اور آپکو اور آپ کے ملاپ کو، آپ کے لئے باعث برکت بنائے”
کیا زیادہ سے زیادہ رشتہ داروں اعزہ اقرباء کی موجودگی  ہی میں،محفل نکاح ہونا، عین سنت مطابق عمل ہے؟ یا فریقین کی طرف سے، رضامندی اور چند گواہوں کی موجودگی میں، سنت طریقہ سے نکاح کرنا مستحب ہے؟ قرون اولی صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے دور میں، ایک نظر دوڑاتے ہیں، تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان ایام، تعلیمات رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں، کس قدر نکاح آسان ہوتا تھا۔ چودہ سو سال قبل کے غیر ترقی یافتہ چھوٹے سے شہر مدینہ میں، آپ ﷺ کے نہ صرف زندہ رہتے ہوئے، بلکہ مدینہ شریف میں حاضر رہتےہوئے بھی، اپنی اولاد کا نکاح آپ ﷺ کی موجودگی میں کرنے یا کروانے کے بجائے، دو چار رشتہ داروں کی موجودگی میں نکاح اور شادی کرتے اور کرواتے ہوئے، بعد میں آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر، اپنی شادی کی خوشخبری سناتے ہوئے، آپﷺ سے دعاء شفقت لیا کرتے تھے
 عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع بھی نہیں دی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، جب ان کے کپڑوں پر زعفران کے نشان دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے جب کہ مدینہ اس وقت، آج کے شہروں جیسا اتنا بڑا شہر بھی نہ تھا۔
فی زمانہ اپنے خاندانی جاہ حشمت اور،انہیں اللہ کی طرف سے عطا دولت بیش بہاء کے کر و فر دکھاوے کے چکر میں، لوگ نہ صرف اپنی اولادوں کی، بلکہ خود اپنی شادیاں بھی انتہائی شان و شوکت سے کرنے کے چکر میں، قرض کے پہاڑ تلے  دبے چلے جاتے ہیں۔ایسے وقت ایک دوسرے سے خود نمائی میں، ایک دوسرے کو پچھاڑ خود کو اعلی اور ارفع ثابت کرتے پس منظر میں، مسلم معاشرے میں، آسان تر زنا کے مقابلے، نکاح کو مختلف رسم و رواج میں جکڑے مشکل تر  بنائے گئے ماحول میں، نکاح کو مسلم معاشرے کے لئے، آسان تربنانے کی سعی پیہم کرنا، ارباب حل وعقل معاشرہ کے لئے، کیا انتہائی ضروری عمل نہیں ہے؟
 مسلم معاشرے میں بینڈ باجے ،ساز وسرور کی محافل پر اور نام نمود کے لئے،لئے اور دئیے جانے والے جہیز  پر، بے دریغ پیسے لٹانا معیوب ہی سمجھا جاتا ہے،لیکن پورےخاندان کو شریک محفل ولیمہ دعوت دئیے جانے سے پرے، پورے خاندانی رشتہ داروں میں کھانے پہنچانے کی جائز رسوم، معاشرہ سے ختم کرنا کیا ممکن نہیں رہا ہے؟ اپنی دونوں دختران شادی کے موقع پر، باوجود وسعت رزق کے، ہم نے صرف اور صرف، معاشرے کی اس جائز رسم بے جا پر، نکیر کی خاطرخاندان بھر، شادی کا کھانا پہنچانے کی، اس جائز رسم، عمل آوری  ترک کر، عمل خیر کر کیا نہیں دکھایا ہے؟ یقینا ہمیں سبکی محسوس ہوتی ہے جن رشتہ داروں کو، ہم نے ولیمہ کھانا دانستہ نہیں پہنچایا تھا ان کے یہاں شادی پر، ان کے یہاں سے آئے کھانے کو  ہمارے منع کرنے کے باوجود،ان کے اصرار پر، ہمیں خاموش کھانا لینا پڑتا ہے، لیکن یہ سبکی ہمیں گوارا ہے، اس ہماری کوشش کے پس منظر میں، جہاں پورے خاندان تقسیم ہونےوالے کھانے پر، معاشرے کے متوسط طبقات پر پڑتے معاشی بوجھ سے، انہیں  آزاد کراتے، اس جائز مگر  غیر ضروری رسم کو معاشرے سے مفقود ہوتے دیکھنا ہم چاہتے ہیں
الحمدللہ ہمارا مسلم معاشرہ بینڈ باجہ، ساز و سرور کی محافل اور خاص کر لڑکی والوں کی طرف سے دئیےجانے والے، مشروط جہیز سے پاک و صاف ہے۔ لیکن پھر بھی جدت پسند زمانے  کے شادی ھال اخراجات اور بڑھتی مہنگائی، متوسط گھرانوں کے بزرگوں کے لئے، ایک آزمائشی کی گھڑی ہوا کرتی ہے۔ _ایسے میں ایک ہی خاندانی بہن بھائیوں کی، جدا جدا کچھ دنوں وقفہ سے کرتے ہوئے، ہر شادی پر اٹھنے  والے اتنے ہی اخراجات کو، باہم مشورے سے، کچھ شادیوں کواہک ساتھ ملا کر، ایک محفل کئی نکاح کرنے اور کروانے سے، ضیاع دولت سے نہ صرف بچا جاسکتا ہے،بلکہ اسی دولت کو، کسی اور خیر کے مصرف میں لایا بھی جاسکتا ہے۔ اس سمت ارباب حل و عقل تدبر و تفکر کریں تو، مثبت نتائج سے معاشرہ بہرور ہوسکتا ہے واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button