اسلامیات،افسانہ و غزلیات

قوم یہود و عرب دو کردار

 

شیخ رکن الدین ندوی نظامی

کتاب اللہ نے بنی اسرائیل کے ایک رویہ کو بیان کیا ہے، جس کی بنا پر چالیس سال تک زمین میں بھٹکتے رہے۔۔۔
یہ واقعہ اس وقت کا تھا جب سینکڑوں برس کی غلامی، قتل و نہب کے بعد حضرت موسی ع نے انتھک کوششوں سے بنی اسرائیل کو فرعون و آل فرعون سے نجات دلائی۔۔ من و سلوی کا نزول ہورہا تھا، زمین کی مختلف اجناس سے لطف اندوز ہونے کی خواہش نے انہیں بوجھل بنادیا۔۔۔ اس کے لئے حضرت موسی نے وحی الہی کی روشنی میں حکم دیا کہ فلاں بستی کے باشندوں سے مقابلہ کرو۔۔ اور زمین حاصل کرکے مختلف نعمتوں سے استفادہ کرو۔۔
جب بنی اسرائیل نے اس بستی کا جائزہ لیا اور اپنی عددی و جسمانی قوت و طاقت کا اندازہ لگایا تو اپنی بےسروسامانی کا خوف ان پر طاری ہوا اور وہ کہنے لگے کہ

یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾
سورۃ المائدۃ5، آیت24.

“ اے موسیٰ ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں۔ بس تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔۔۔۔

اسی کا نتیجہ کہ چالیس سال بھٹکتے پھرے۔۔۔۔۔۔

دوسرا کردار۔۔۔
رسول اللہ ص کی قیادت میں اسلام و کفر کی پہلی جنگ ہورہی تھی۔۔۔
یہاں رسول اللہ ص کے پیروکاروں کی جانب سے کسی قسم کا مطالبہ بھی نہیں تھا۔۔
ہر طرف سے گھرنے اور ستائے جانے کے باوجود، چہار سو کفر کا نرغہ، یہودی سازشیں، سخت مزاج، پتھر دل جنگجو قبائل کے درمیان۔۔۔ ایسے سخت حالات میں جب کہ قریش مکہ مسلمانوں اور اسلام کو ختم کرنے کے عزم سے مدینہ پر حملہ کرنے نکلے تھے، کلیجے منھ کو آرہے تھے، ان حالات میں مسلمانوں کا جواب تھا:

اے اللہ کے رسول! ہم موسیٰؑ کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ پائے گا جب تک ہماری نعشوں کو نہ روندے۔
اے اللہ کے رسول! جنگ تو معمولی شئے ہے آپ اگر سمندر میں کودجانے کا کہیں تو آپ اس پر بھی ہمیں تیار پائیں گے۔۔۔
پھر جو کچھ تاریخ نے رقم کیا وہ ہم سب جانتے ہیں۔۔۔

ہمارا کردار؟

ہم آج کونسا کردار نبھا رہے ہیں؟

کیا ہمارا رویہ بھی یہ نہیں بنا کہ جس گھڑی میدان میں مقابلے کے لئے نکلنا ہوتا تو اس وقت ہم مقابلے کے لئے نکلنے کے بجائے صرف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں:
اے ہمارے رب! تو فلاں فلاں کو ہلاک کر۔۔۔

تو پھر کیا منزل پر پہنچا جاسکتا ہے اس طرز عمل سے یا مزید چالیس سال تک۔۔۔۔؟؟

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button