مضامین و مقالات

غزہ فلسطین مسئلہ، ہم امت مسلمہ کا امتحان ہے

 

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

مندرجہ ذیل کسی انجان شخص کے لکھے اس تازیانہ عبرت تحریر کو، عام افادیت کے لئے،ہم اس یاد داشت کے ساتھ آگے ترسیل کررہے ہیں کہ جب نارابراھیم سلگ رہی تھی، نمرود نے ایک پہاڑی کی چوٹی سے،ایک بہت بڑی غلیل کی مدد سے، حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بھڑکتی آگ کے درمیان پھینکوادیا تھا اور اپنے طور مطمئن تھا کہ ابراھیم علیہ تو جل کر راکھ ہوچکے ہونگے(قرآنی واقعات کے شواہد ترکیہ میں اب بھی موجود ہیں) اس وقت درخت پر بیٹھی ننھی "گوریا”پریشان ہو اڑتی ہے اور چاہتی ہے کہ پاس کی ندی سے اپنی چونچ میں پانی بھر،جلتی نار ابراھیم پر، اوپر سے ڈالتے ہوئے، اس آگ کو بجھانے کی، اپنے طور کوشش تو کرے، کہ اس درخت کے پاس رہنے والا اژدھا بھی،جو ابراھیم کو جلائے جانے سے پریشان تھا،گوریا کو مخاطب کر کہتا ہے آئے ننھی گوریا، تیری چونچ میں موجود اتنے سے پانی سے، یہ اتنی بڑی آگ تھوڑی نا بجھ سکتی ہے؟ تو اس وقت معصوم سی گوریا کا جواب،آج کے ہم امت مسلمہ کے لئے، تازیانہ عبرت سے کم نہیں ہے۔ اس وقت گوریا نے اژدھے سے کہا تھا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں آگ بجھا نہیں سکتی لیکن کوشش تو ضرور کرسکتی ہوں نا؟ تاکہ کل قیامت کے دن جب میدان محشر میں،اللہ رب العزت ابراھیم کو آگ میں ڈالنے والوں اور ابراھیم کو آگ سے بچانے والوں کو، الگ الگ کھڑا ہونے کو کہے گا، تو میں کم از کم نار ابراھیم، بجھانے والوں کی صف میں تو کھڑی پائی جاؤں گی نا۔ آج اللہ رب العزت کی پھٹکار والے زایونسٹ قوم یہود،اپنے آقاء امریکہ و یورپی حکمرانوں کی مدد و نصرت سے،گریٹر اسرائیل کی تعمیر نؤ کی خاطر، ارض فلطسین سے تمام تر فلسطینیوں کے انخلا کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، اور قبلہ اولی بیت المقدس کی ارض پاک کو، شہید کئے اس پر اپنی ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے،قبلہ اولی بیت المقدس کو ان زایونسٹ قوم یہود کی دسترس و قبضہ میں جانے سے روکنے کے لئے، فلسطینی مزاحمت کار، مستقل مصروف عمل ہیں۔ اس موقع پر ہم سعودی عرب و دیگر عرب ریاستوں پر تنقید بے جا سے احتراز کرتے ہوئے،یمن و ایران و شام و عراق کے ساتھ ہی ساتھ، ساؤتھ افریقہ و برازیلی مسیحی حکومتیں اور جرمنی برطانیہ، فرانس و امریکہ کے مسیحی و یہودی عوام جو اسرائیل کے خلاف، فلسطینی معصوموں کے ساتھ ہیں، وہ یقیناً اپنے رب دوجہاں کے،حق و باطل کے ساتھ کھڑے رہنے کے، اس امتحان خداوندی میں صاف صاف نظر آنے لگے ہیں۔ اس موقع پر بس ہم یہی دعا کرسکتے ہیں، کہ باطل عظیم قوتوں پر،ان مفلوک الحال فلسطینی مزاحمت کاروں کو، جو تونے اب تک ہر حربی محاذ پر، برتری و فوقیت عطا کی ہوئی ہے۔بس تو انہئں صبر و استقامت کے ساتھ ،وہابی امراض سے حفاظت فرماتے ہوئے، انکی بھرپور مدد و نصرت فرما۔ جس طرح تونے اپنے گھر کعبہ کی حفاظت کے لئے ابابیل کے لشکر کو دیڑھ ہزار سال قبل بھیجا تھا اب اپنے قبلہ اولی بیت المقدس اور اسکے محافظان فلسطین کی حفاظت کے لئے بھی، کسی انجانی مخلوق کو لشکر ابابیل کی صورت نازل کردے یارب۔ وما علینا الا البلاغ

اب کیا ہوگا؟
بہت سے احباب پوچھتے ہیں کہ غزہ جنگ کا انجام کیا ہوگا؟
پہلے نتن یاہو کا منصوبہ سمجھ لیجئے۔ نتن یاہو غزہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اس منصوبے کے چار مراحل ہیں۔ سب کا مقصد جانبازوں سے ہتھیار ڈالوانا اور شکست تسلیم کروانا ہے۔
پہلا مرحلہ: شیطانی قوتوں (بشمول عرب اتحادی) نے مل کر یہ پلان بنایا تھا کہ تباہ کن بمباری اور وحشیانہ قتل عام جس سے شہر کا 85% حصہ تباہ اور ایک لاکھ تک لوگوں کو قتل و زخمی کرنا اور ڈیڑھ ملین تک کو بے گھر کرنا۔ نتیجے میں مزاحمت بھی ختم ہو جائے گی اور باقی ماندہ جنگجو ہتھیار ڈال دیں گے اور دجالی قوت اپنی جیت کا اعلان کر دے گی۔ لیکن وحشت و درندگی کے تمام تر ریکارڈ ٹوٹ گئے، مگر اہل غزہ کی مزاحمت، صبر و استقامت، برداشت و تحمل، ثبات اور عزم میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ جانباز میدان میں ڈٹے رہے اور صہیونی درندوں کے لیے پیغام اجل ثابت ہوتے رہے۔ شکست تسلیم کروانے یا ہتھیار ڈالوانے کا پہلا منصوبہ ناکام ہو گیا۔
دوسرا مرحلہ: گرفتاری، تشدد اور تذلیل کا تھا۔ چنانچہ غزہ کے ہزاروں نہتے شہریوں کو گرفتار کیا گیا، انہیں جنگجو باور کرایا، ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے اہل خانہ کے سامنے ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔ حتیٰ کہ بے شمار لوگوں کو قتل بھی کر دیا گیا اور خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں۔ مگر مزاحمت کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی اور یہ مرحلہ بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوگیا۔
تیسرا مرحلہ: اس مرحلے میں غزہ سے نقل مکانی کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ مرحلہ واشنگٹن کے کہنے پر پلان میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے عرب غلاموں نے بھی اسے قبول کیا اور مہاجرین غزہ کے لیے صحرائے سینا میں جگہ بھی تیار کی گئی، لیکن سخت جاں فلسطینیوں کی ثابت قدمی نے اسے بھی تقریباً ناکام بنا دیا ہے۔ فلسطینیوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ انہیں بے دخل اور دربدر کرنے کے لیے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، یہ نکبہ ثانیہ ہے، اس لئے ان کا ایک ہی نعرہ ہے: ہم یہیں مریں گے اور غزہ نہیں چھوڑیں گے۔

چوتھا مرحلہ: بھوک اور بیماری کا مرحلہ تھا، جو اب درپیش ہے۔ خوراک، دوا اور پانی روکنا، دکانوں پر بمباری، کھیتوں کو جلانا اور مویشیوں کو ہلاک کرنا، یہ آخری مرحلہ اب روبہ عمل ہے۔ امدادی سامان تو دور کی بات، غزہ کے دکانوں کا باہر سے منگوایا ہوا سامان داخل ہونے نہیں دیا جا رہا۔ جنوب میں تو پھر بھی صورتحال زیادہ سنگین نہیں ہے۔ مگر شمال میں حالات بہت ہی گمھبیر ہیں۔ یہاں تک کہ چار لاکھ افراد کے بھوکوں مرنے کا خطرہ ہے۔ اگر فلسطینی اس آزمائش پر بھی صابر و ثابت قدم رہے، پہلے کی طرح جانبازوں کا ساتھ دیتے رہے، لالچ میں آکر ان کی مخبری نہیں کی تو وہ سرخرو بن کر ابھریں گے۔ اس کے بعد غزہ کا محاصرہ بھی ختم ہو جائے گا۔ قابض دجالی قوت اور اس کے سرپرست ذلیل ہو جائیں گے۔ اہل غزہ کی شرائط کو تسلیم کیا جائے گا۔ غزہ کے نقصان کی تلافی کی جائے گی۔
یہ منصوبہ اسرائیلی جنگی کونسل نے منظور کیا ہے اور بائیڈن اور اس کی انتظامیہ نے اسے منظور کر لیا ہے۔ عرب حکام (امریکی غلام) بھی اس سے متفق ہیں۔ لیکن اب تک یہ منصوبہ ناکام رہا ہے، مزاحمت اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، غزہ والوں کا مزاحمت کے ساتھ جو تعاون اور مدد ہے، وہ تصور سے بھی باہر ہے۔ یقین کیجئے اکلوتے لخت جگر کی لاش گود میں رکھ کر بھی ماں کہتی ہے کہ ہم اور ہمارے بچے جانبازوں پر قربان، ہماری جان کی خیر ہے، وہ سلامت رہیں! کیا اس کا تصور کیا جا سکتا ہے؟
بائیڈن انتظامیہ کو توقع تھی کہ یہ معاملہ ایک مہینے میں نمٹ جائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بائیڈن ملعون نتن یاہو کو بار بار تاکید کر رہا تھا کہ نیا سال شروع ہونے تک آپریشن مکمل کرلو۔ اس کے بعد واشنگٹن اس کی حمایت نہیں کرے گا۔ لیکن اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور دجالی ریاست کو کہنا پڑا ہے کہ جنگ ایک سال تک بھی طویل ہو سکتی ہے۔
ظلم و درندگی کے اس طول پکڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ خاص طور پر جارحیت کی حمایت کرنے والے ممالک نے دجالی ریاست کو الجھا کر اس کو اضطراب اور تناؤ کی حالت میں چھوڑ دیا اور جنگ جتنی طویل ہوئی، جیسے جیسے مزاحمت کاروں کی بہادری بڑھتی گئی، عالمی ضمیر کی آواز بلند ہوئی اور حامیوں پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اب برازیل جیسے ایک غیر متعلقہ ملک نے بھی دجالی ریاست کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات توڑ دیئے۔ اتوار کو اسرائیل کے خلاف جرمنی میں ایک تاریخ ساز مارچ ہوا۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی احتجاجی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے آنکھ بند کر نتن یاہو کی حمایت جاری رکھنا آسان نہیں رہے گا۔ جبکہ اسرائیل کے اندر بھی احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہونے لگا ہے۔ مظاہرین کی گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ حتیٰ کہ کینسٹ ارکان بھی جنگی کونسل تحلیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ناکام ہوگئی۔
عسکری مبصرین کا کہنا ہے کہ اب ہم جنگ کا قریب قریب اختتام دیکھیں گے اور نتن یاہو اور اس کے گروہ کے لیے اور ہر اس شخص کے لیے جس نے اس کی حمایت کی اور خفیہ یا علانیہ اس کی مدد کی، ایک ذلت آمیز نقصان دیکھیں گے۔ غزہ کی جنگ اپنے نازک مرحلے میں ہے، اس لیے اب صبر و ثبات کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ امید یہی ہے کہ اہل غزہ اب بھی ثابت قدمی اور بہادری کا مظاہرہ کریں گے۔ اب اللہ پاک کی مدد سے ایک زبردست فتح قریب ہے۔ ان شاء الله العزیز۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button