
مضامین و مقالات
وقف ترمیمی بل پر چندرا بابو نائیڈو کی نا ۔
مشرف شمسی
وقف ترمیمی بل گزشتہ جمعہ کو لوک سبھا میں پیش ہونا تھا۔بی جے پی نے اپنے سبھی اراکین پارلیمنٹ کو موجود رہنے کا وہپ
پہلے ہی جاری کر رکھا تھا ۔وہپ کے مطابق بی جے پی کے سبھی اراکین پارلیمنٹ ہاؤس کی کارروائی شروع ہوتے ہی موجود بھی نظر آ رہے تھے ۔سبھی منتظر تھے کہ ایک خاص بل آج پارلیمنٹ میں پیش ہوگا۔لیکِن دن گزر گیا وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوا ۔
حتٰی کہ بی جے پی اراکین ہی دونوں ہاؤس میں ہو ہللا کر ہاؤس کو چلنے نہیں دے رہے تھے ۔پتہ یہ چلا کہ چندرا بابو نائیڈو نے وقف ترمیمی بل کے حق میں جانے سے انکار کر دیا ہے۔چندرا بابو نائیڈو تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں۔چندرا بابو نائیڈو کو محسوس ہوا کہ اگر وہ وقف ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیتے ہیں یا پارلیمنٹ میں غیر حاضر رہتے ہیں تو ریاست کے چار فیصدی مسلمانوں کے ووٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔یہ چار فیصدی ووٹ آئندہ چناؤ میں جگن ریڈی کی پارٹی کے ساتھ چلا گیا تو اُنکے لیے دوسری بار حکومت میں آنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائیگا۔جبکہ آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی کی حکومت بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں قائم ہے لیکن چندرا بابو نائیڈو کی حکومت میں اُنہیں اپنی پارٹی کی اکثریت ہے۔حکومت چلانے کے لئے نائیڈو کو بی جے پی کی ضرورت نہیں ہے ۔کہا یہ بھی جاتا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو نے نتیش کمار سے بھی بات کی تھی اور نتیش کمار بھی وقف ترمیمی بل کے حق میں نہیں تھے۔لہٰذا بی جے پی نے چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کی جانب سے صاف صاف سگنل نہیں ملنے کی وجہ سے فلہال گزشتہ ہفتہ بل پیش کرنے سے گریز کیا ہے لیکِن آئندہ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوگا ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے ۔
بی جے پی اپنے اتحادی پارٹیوں کو بلیک میل کرنے کے لئے مشہور ہے۔چندرا بابو نائیڈو کو بلیک میل کرنا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ اُنہیں ریاست میں اپنی اقلیتی ووٹ کھسک جانے کا خوف ہے۔وہ اس بل کے حق میں تبھی جائیں گے جب اُنہیں یا اُنکی ریاست کو لمبا چوڑا مالی فائدہ حاصل ہو جو اس وقت مودی سرکار مہیّا کرانے کی حالت میں نہیں ہیں۔ساتھ ہی چندرا بابو نائیڈو بھی وزیر اعظم مودی کی طرح کارپوریٹ کے ساتھ کا کھیل بہت اچھی طریقے سے جانتے ہیں ۔اسلئے مودی سرکار کے لئے وقف ترمیمی بل پر چندرا بابو نائیڈو کو منانا آسان کام نہیں ہے۔
جہاں تک نتیش کمار کا سوال ہے تو اسی سال بہار میں چناؤ ہونے جا رہے ہیں۔حالانکہ نتیش کمار کی ذہنی کیفیت پر مسلسل سوال کھڑے ہو رہے ہیں لیکن نتیش کمار جب تک پارٹی کے سربراہ ہیں وہ اپنی پارٹی کو وقف ترمیمی بل کے حق میں جانے سے گریز کریں گے ۔حالانکہ کہا جا رہا ہے کہ نتیش کمار کے بیمار ہونے سے پارٹی کے بیشتر فیصلے دوسرے سینئر عہدیدار لے رہے ہیں ۔
نتیش کمار کی افطار پارٹی کا جس طرح سے بہار کے بیشتر مسلم حلقوں میں بائیکاٹ کیا گیا اس سے بھی نتیش کمار کو ایک خاص سندیش گیا ہے ۔
ٹرمپ کی طرح مودی بھی ڈیل کرنے میں ماہر ہیں ۔گزشتہ تقریباً ایک سال سے وزیر اعظم مودی نے اپنی پارٹی کی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اپنے طریقے اور اپنی مرضی کے مطابق حکومت چلائی ہے۔زیادہ تر معاملوں میں مودی حکومت نے اپنے اتحادی پارٹیوں کی دخل کو منظور نہیں کیا ہے ۔
وقف ترمیمی بل بھی مودی حکومت ہر حال میں پاس کرانے کی کوشش کریگی۔اب سوال ہے کہ اس بل سے کتنا بڑا مفاد مودی حکومت اور کارپوریٹ کا جڑا ہے۔مودی حکومت اور کارپوریٹ کے مفاد کے بدلے میں چندرا بابو نائیڈو کتنا لے کر اپنے چار فیصدی مسلمانوں کے ووٹوں کے کھونے کا رسک لے سکتے ہیں ۔سب پیسے کا کھیل ہے۔مودی سرکار پیسے کے ہر ایک ذرائع پر اپنا مکمل کنٹرول بنا نا چاہتی ہے ۔وقف ترمیمی بل پاس ہو گیا تو ایسا نہیں ہے کہ مودی سرکار کی نظر مندروں کی آمدنی پر نہیں ہے ۔اگلا نشانہ مندروں پر کنٹرول کا ہی ہوگا۔اگر ایسا نہیں ہے تو ایودھیا میں رام مندر ٹرسٹ پر سرکار کا کنٹرول نہیں ہوتا ۔جس طرح سے مودی سرکار کام کر رہی ہے آئندہ چند برسوں میں مندر ،مسجد ،چرچ اور گردوارے پر سرکار پچھلے دروازے سے اپنے تحویل میں لینے کی کوشش ضرور کریگی۔
وقف ترمیمی بل گزشتہ ہفتے پیش نہیں ہوا تو اس کا مطلب آئندہ پیش نہیں ہوگا یہ دماغ سے نکال دینی چاہیے۔کیونکہ مودی سرکار کو معلوم ہے کہ پیسے کے ذرائع پر مکمل کنٹرول کر کے ہی اپنی حکومت کو ذیادہ سے زیادہ طوالت دے سکتے ہیں ۔کیونکہ پیسے کے بنا نہ کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہیں اور نہ چناؤ جیتا جا سکتا ہے ۔مسلمانوں کو بھی وقف ترمیمی بل پر کوئی حکمت عملی بنانی ہے تو اس نکتے پر سوچنا ضروری ہے ۔
میرا روڈ ،ممبئ
9322674787