
قتل فلسطین اصل میں مرگ یہود ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
پچھتر سال قبل ہٹلر و یورپین اقوام کے ہاتھوں ستائے، بے گھر کئے، ان مجبور بدحال یہودیوں کو اپنے وطن فلسطین میں پناہ دئیے، ان محسن و مددگار فلسطینیوں کو، خود انکے ہی وطن کے ایک حصہ غازہ میں،عالم کی سب سے بڑی کھلی جیل کی طرح مقید کئے، موجودہ ترقی پزیر جمہوری دور میں بھی، انہیں تمام تر حقوق انسانی سے محروم رکھے، مجبور و بدحال فلسطینیوں کی طرف سے، انکے اپنوں کی آزادی کی جنگ لڑ رہے، حماس کے حملوں کی سزا کے طور پر، غاصب اسرائیلی افواج کی طرف سے, انسانی حقوق و عالمی جنگی اوصول کے خلاف، عوامی بستیوں اسکول و ہاسپٹل پر، بے تحاشہ، بے دردانہ بمباری کرتے ہوئے، سابقہ چار پانچ ہفتہ دوران، ساڑھے چار پانچ ہزار معصوم کم سن بچوں سمیت، گیارہ ہزار سے زائد نساء و انسانیت کا قتل عام کئے جاتے پس منظر میں بھی، حقیقی آزادی حق رائے دہی اور حقوق جانور تک کا ہمہ وقت نعرہ بلند کرنے والے، اعلی تعلیم یافتہ، ترقی پزیر امریکی و یورپی اقوام کے ساتھ ہی ساتھ، عالمی معشیت پیٹرو ڈالر پر مالکانہ حق رکھنے والے، 200 ملکی اقوام متحدہ کے 25% فیصد سے زآید، پچاس پچپن سے زیادہ خود مختار مسلم و عرب ممالک کی مجرمانہ خاموشی پر، بھارت بنگلور کی ایک نساء کا یہ مضمون، "روح پر طمانچہ” ہم جیسوں کو بھی جھنجوڑ، ہمارے قلب و اذہان کو، خون کے آنسو رلاچکا ہے۔کاش کے دو ڈھائی سو سال قبل شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان شہید علیہ الرحمہ کا وہ معرکہ الآراء جملہ، "ہزار سالہ گیڈر کی غلامانہ زندگی پر،ایک دن کی آزاد شیر کی زندگی جینا وہ پسند کرتے ہیں” یہ کہتے ہوئے بھارت پر تجارت کے بہانے آئے، فرنگی انگریز افواج اور اس وقت، انکے شریک حرب و جنگ، حیدر آباد نواب اور شیواجی مہاراج کی منافقانہ افواج سے لڑتے ہوئے، 1799میں حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ شہید ہوتے ہوئے، موجودہ دور کے ہٹلر نواز یہود و ہنود و نصاری مشترکہ ظلم و انبساط پر، خود خاموش رہتے یا درپردہ ان ظالموں کی مدد کرتے، عرب و مسلم شاہان،خصوصا، عالم کی پانچویں بڑی حربی طاقت، اور عالم کی اکلوتی مسلم مملکت اسلامیہ پاکستان کی مجرمانہ خاموشی، اور فلسطینیوں کی حق خودارادیت و آزادی کی آواز، عالمی سطح اقوام متحدہ میں اٹھاتے رہنے والے،جمہوری طرز منتخب عوامی نمائندے، سابق پرائم منسٹر پاکستان جناب عمران خان مدظلہ کے، سال ڈیڑھ سال قبل، اقتدار سے بے دخل کئے جاتے، انہیں جیل کی کال کوٹھری میں قیدو بند کئے، یہود و ہنود و نصاری کے اشاروں پر،قوم و ملت کےمفاد کاخون کرنے والے، محافظان قوم وطن کی، دو سال قبل کی سازش کے تانے بانے کی کڑیاں، ارض فلسطین کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے، یہود و نصاری کی سازشوں میں، محافظان قوم وطن مسلم مملکت پاکستان کے در پردہ شریک جرم ہونے کے اشارے دیتا ہے
اگست 1945 ھیروشیما ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا، لاکھوں معصوم جاپانیوں کے قتل عام بعد، اپنی چودراہٹ عالم پر قائم کرنے والے، صاحب امریکہ نے،حقوق انسانیت و حقوق جانوروں کے پرفریب نام پر، عالم انسانیت پر ظلم و انبساط کی جو نازی حکومت قائم کی ہوئی ہے آج 78 لمبےسال بعد بھی، وہ گیارہ ہزار معصوم فلسطینیوں کے قتل عام باوجود، نازی یہود کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے، اپنے مکروہ چہرے سے، عالم انسانیت کو، اسلام دشمن یہود ونصاری سازشوں سے ختم کئے گئے، خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، خلافت بنو عباسیہ اور آخر میں خلافت عثمانیہ کے تیرہ سو لمبےاسلامی حکومتی، پر امن دور کی یاد تازہ کرتا ہے۔ عالم پر انسانیت نوازی کے نام پر، انسانیت کو شرمسار کرتی یہ صیہونی مسیحی سو سالہ حکومت، یقیناً خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ ہی کی شروعات سے، ختم ہوتے ہوئے، عالم انسانیت کو پرامن اسلامی دور حکومت فراہم کرسکتی ہے۔
قتل فلسطین اصل میں مرگ یہود ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
زمانہ شاہد ہے، ھیرو شیما ناگاساکی پر، ایٹم بم برساتے ہوئے، لاکھوں جاپانیوں کے قتل عام بعد, جاپانی قوم، علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے اس شعر کے مصداق،اس وقت کے معشیتی ترقیات کے اسباب فن زراعت کوانکے لئے جلادئیے جانے کے بعد بھی، اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ فن صنعت کے ذریعہ عالم پر چھاگئے تھے۔
اسلام زمانے میں،دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضمون،ہم تم کو دکھادیں گے
اسلام کی فطرت میں قدرت نے یہ لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
انیسوس ویں صدی کی دوسرے دہے ہی سے جرمن نازی حکمران ہٹلر کے ہاتھوں لٹے لٹائے، تباہ حال یہودیوں کو جب یورپین ممالک سمیت امریکہ تک، اپنے یہاں مستقل قیام کی اجازت نہیں دے رہے تھے قوم فلسطین نے ان کی حالت زار پر رحم کھاکر، اپنی سرزمین فلسطین پر ان یہودیوں کو پناہ کیا دی، نصف عالم پر اپنی حکمرانی کے نشہ میں سرشار برٹش حکمرانوں کو، 1923سقوط استنبول ترکیہ کے بعد، خلافت عثمانیہ کے خلاف اس کے اتحادی فرانس و امریکہ تسلط میں،خلافت عثمانیہ کے ماتحت رہے مسلم اکثریتی عرب و آفریقن خطے کا بٹوارہ کرتے ہوئے، ارض فلسطین کو اپنی ماتحتی میں رکھتے ہوئے،مسلم علاقوں کو اس وقت کے طاقتور ترین مسیحی ملکوں میں تقسیم کردیا تھا،جو بعد کے دنوں میں حریت پسندوں کی کوششوں سے آزاد مملکتیں قائم ہوتی رہیں اور یوں،مسلم اکثریتی عرب و افریقن ممالک کے بیچوں بیچ، اس یہودی فتنے کی جڑ 1945 میں رکھتے ہوئے، عرب و افریقن مسلمانوں کے ناک میں نکیل ڈالنے کے مصداق،ارض فلسطین کو یہودی ریاست میں تبدیل کرتے ہوئے، گویا ارض فلسطین کو یہودی ریاست کے طور، مسیحی حربی اڈے کی شکل اسرائل کا قیام وجود میں لایا گیا تھا۔ نئی نئی معڑض وجود میں آئی عرب و افریقن مملکتیں، جہادی جذبات سے عاری، عیش و عشرت میں مںست پڑے رہنے کی وجہ سے، 1967 کی عرب اسرائل جنگ بعد، فلسطینیوں کے ارض مقدس کو پوری طرح سے یہودی تسلط میں قرار دیتے ہوئے، پڑوسی ریاستیں جارڈن شام و لبنان و مصر کے مقبوضہ علاقوں پر مشتمل، عرب و افریقن مسلمانوں کے قلب و اذہان پر دندناتے روندتے ہوئے، ان پچھتر سالوں میں عالم انسانیت نےجو نظارہ کیا تھا، وہیں پر علامہ اقبال کے اسی شعر ہی پر کھرا اترتے ہوئے، سابقہ پچھتر سالوں کے قوم یہود کے ظلم و انبساط کی جہادی بھٹی میں جلے تپے، صحیح معنوں اللہ کے شیر خود کو ثابت کئے، عالم کی چوتھی طاقت ور ترین حربی قوت اسرائیل سے، کل کے اپنے دست سے غلیل و پھتروں سے رائفل بردار فوجیوں اور ٹینکوں پر حملہ آور فلسطینی نوجوان، اپنے فلسطینی میزائل میں ڈاکٹر جمال مرحوم شہید کے بنائے میزائل وڈرون سے سابقہ 35 دنوں سے لوہا لئے، عالم حرب کے ترقی پزیر 140 اسرائیلی ٹینکوں اور اس میں موجود اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ تباہ و برباد کئے، عالم کو متحیرالعقل کئے ہوئے ہیں۔ کاش کہ ارض فلسطین کے آس پڑوش کی مسلم مملکتیں، کھل کر ان فلسطینی مجاہدین کا ساتھ دی ہوتیں تو، مسلم اکثریتی عرب و افریقی علاقوں کے درمیان سنپولے کی طرح تربیت و پرورش پارہے، اسرائیل کے وجود ہی کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور ہے اور اسی لئے تو اس بہترین موقع کا فائیدہ اٹھاتے،ان فلسطینی جانبازوں کا پوری دلجمعی کے ساتھ، ساتھ دیتے ہوئے،اسرائیلی فتنے کو ختم کرنے کے بجائے، اسلامک ممالک، ڈرے ڈرے سہمے اسرائیل و امریکہ سے خائف، اپنا دامن بچاتے، دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف روس و چائینا ایران کو آگے کر، اس پورے خطہ مشرق وسطی سے،امریکی حربی دباؤ کو ختم کرنے کے درپے پائے جاتے ہیں ، اپنے اسی ایجنڈے کو سامنے رکھ، کئی دہائیوں سے ایران و عرب کے درمیان طویل ترین جنگ لڑے دونوں فریق کے درمیان، چائینا کے مصالحت کئے، موقع سے، اسرائیل کے فتنہ کو صدا ختم کئے جانے کے لئے یہ صحیح موقع تھا۔ لیکن عرب حکمران اس موقع پر بھی، اپنے مملکتی معشیتی فوائد دیکھتے ہوئے، فلسطینی مجاہدین کے خوف سے،اسرائیل سے بھاگے، یو اے ای کی مستقل سکونت اختیار کرنے آرہے دشمن اسلام یہودیوں کا، اپنی مملکت یواے ای میں استقبال کرنے میں ہی منہمک لگتے ہیں۔ جبکہ چاہئیے تو یہ تھا کہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی فوجی مدد کرنے پر، اس وقت کے سعودی شاہ فیصل علیہ الرحمہ نے یورپ و امریکہ کو پیٹرول کی ترسیل بند کرنے کی دھمکی دی تھی اور امریکہ کے سعودی عرب کے تیل کنوئیں بلاسٹ کر برباد کرنے کی دھمکی دینے پر، شاہ فیصل مرحوم نے کیا خوب جواب امریکہ کو دیا تھا کہ ہم عرب اونٹ و بکریوں کا دودھ پئے اور اسکا گوشت کھائے ، ریگستانی خیموں میں زندہ رہ لیں گے، لیکن یورپ و امریکہ کی صنعتیں، پیٹرول کے بغیر بھی، کیا چل پائیں گے۔اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ شاہ فیصل مرحوم کی قبر اطہر کو، اپنے نور سے بھردے اور جنت میں انکے درجات کو بلند کردے۔ اور موجودہ عرب حکمرانوں کو ،حق خود دارئیت سے جینے کا ہنر عطا کردے ۔ کاش یہ پیٹرول سے مالا مال عرب حکمران،غزہ کے 20 لاکھ،بےکس فلسطینی مسلمانوں کا غذا پانی بند کرنے والے، اسرائیل اور اس کی بربریت باوجود اس کی مدد کرنے والے یورپ و امریکہ کو پیٹرول ترسیل بند کرنے کی دھمکی دیتے ، لیکن معمولی فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھاتےاسرائیل کو، آنکھ دکھانے کی ہمت تک یہ عرب حکمران اپنے میں نہیں پاتے ہیں۔ اللہ ہی سے دعا کہ پورے عالم میں سابقہ پچھتر سالوں سے جہادی جذبات کو، اپنے گلو میں لئے،غزوہ بدر و احد و غزوہ خندق کی یاد تازہ کرنے والے، مجاہدین غازہ فلسطین کی آبرو و لاج رکھ لے۔ اور انہیں حق خودارادیت کے ساتھ آزاد مملکت فلسطین قائم کئے،قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد رکھے، عزت و شان و شوکت سے رہنے لائق چھوڑ دے۔ وما علینا الا البلاغ
روح پر طمانچہ
ازقلم:-عشرت فاطمہ، بنگلور
میری چھ سالہ بیٹی کھیلتی ہوئی چار پانچ سیڑھیوں سے نیچے گر گئی جس سے اُس کو گھٹنے کہنی اور ماتھے پر چوٹ لگ گئی وہیں کچھ دوری پر میری تیرہ سالہ بیٹی بیٹھی ہوئی تھی اور وہ سب کچھ دیکھ کر صرف افسوس سے سر ہلا کر خاموش بیٹھی رہی۔
مجھے بڑا غصّہ آیا، میں نے تیز آواز میں اُس سے کہا "کیسی بڑی بہن ہو شرم آنی چاہیئے تمہیں تمہاری چھوٹی بہن گرگئ اور تم صوفے پر آرام سے بیٹھی دیکھ رہی ہو”
اُس نے کہا "مجھے افسوس ہے کہ وہ سیڑھیوں سے گر گئی بُرا بھی لگا کے اس کو چوٹ آئی، کیا اتنا کافی نہیں ہے؟ اگر آپ کو اتنا کافی نہیں لگ رہا ہے تو ٹھیک ہے میں اپنی اِنسٹا سٹوری میں لکھ دوں گی کے آج میری چھوٹی بہن کے ساتھ ایسا ہو گیا، اب آپ خوش ہیں؟”
اس کا یہ انداز یہ الفاظ سن کر میرا دماغ بھک سے اُڑ گیا، میں شاک کی کیفیت میں کھڑی اُس کا منہ تکتی رہ گئی
مجھے اس طرح کھڑا دیکھ کر اس نے بیزاری سے کہا "امّی اب آپ اُوور ری ایکٹ (over react) کر رہی ہیں ہم تو لوگوں کی "موت” پر ایسے ہی کرتے ہیں یہ تو صرف چار پانچ سیڑھیوں سے گری ہے "۔
میں نے کہا کیا بَک رہی ہو تم؟
میرے یہ کہنے پر وُہ بھڑک اُٹھی اُس نے میرا ہی سیل فون اٹھا کر میرے منہ کے سامنے کیا اور کہا "یہ آپ کا فون ہے یہ اپکا واٹس ایپ سٹیٹس ہے آپ پچھلے آٹھ دن سے واٹس ایپ پر فلسطین کے سپورٹ میں اپنا سٹیٹس ڈال رہی ہیں مرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے، زخمی لوگ، گرتی عمارتیں، لاشوں کے انبار، یہی آپ نے دوسرے معاملات میں بھی کیا یوکرین کے وقت، ہاتھرس کے وقت، روھنگیا کے وقت، لنچگ میں مارے جانے والوں کے لیے۔۔
بابا نے بھی ایسا ہی کچھ کیا تھا، میرے سکول کے کچھ ٹیچرز بھی ایسا ہی کرتے ہیں، جمعہ کے خطبہ میں بھی کچھ اس طرح کا ذکر کر دیتے ہیں، جب آپ سارے بڑے لوگ ماں باپ، ٹیچرز، مدرسے کے مولانا، میرے کلاس فیلوز کے والدین، مسجد کے امام و خطیب، مذہبی سکالرز وغیرہ وغیرہ سارے دوسروں کے مرنے پر، لُٹنے پر، اُن کے گھروں سے نکالے جانے پر، اِسی انداز میں اِسی طریقہ پر ری ایکٹ کر سکتے ہیں تو پھر میرا ری ایکشن غلط کیسے ہوگیا؟ بچے کریں تو غلط سینسلیس ہے؟ اور بڑے کریں تو حق ہے صحیح ہے؟؟؟
امیّ یہ بڑا ہی دوغلہ پن ہے منافقت ہے
اور آپ کو حیرت مجھ پر ہورہی ہے!!!
اُس کا ایک ایک جملہ میرے چودہ طبق روشن کر نے کے لئے کافی تھا ۔۔ ایسا لگا یہ میرے منہ پر نہیں میری روح پر طمانچہ تھا۔۔
میں اپنی تیرہ سالہ بیٹی سے نظر نہیں ملا سکی اسکا کہا گیا ایک ایک لفظ سچ تھا۔۔
اور سچائی دودھاری تلوار کی طرح ہر جھوٹ کا پردہ چاک کرتی ہوئی نازل ہوتی ہے۔
ہم اپنے عمل سے اپنے بچوں کو یہی کچھ سکھا رہے ہیں کہ اپنی تکلیف پر اسٹیانڈ لیں اور دوسروں کی تکلیف پر افسوس کریں کافی ہے ، تھوڑا سا زبانی جمع خرچ یا پھر دو منٹ کا مون دھارن کریں یا اس سے کچھ زیادہ کرنا ہے تو پروٹسٹ یا ریالی نکالیں بیانر لیکر کسی چوراہے پر کچھ دیر کھڑے ہوجایں بس آپ اور اپکا ضمیر مطمئن ہوجاے گا
ہم یہی سمجھتے ہیں ۔۔۔
مگر کیا یہی حقیقت ہے؟
کیا یہی عدل ہے؟
کیا یہی انصاف ہے؟
کوئی راہ چلتا میرے گھر پر قابض ہوجاۓ اور سارے ثبوت رکھنے والے اور حقیقت جاننے والے میرے حق میں گواہی دینے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیں تو؟
میرے گھر سے میری بیٹی اغوا ہوجاۓ اور میرے پڑوسی، میرے رشتے دار، دوست احباب صرف افسوس کا اظہار کریں اور اپنے اپنے گھر کی سیکیورٹی بڑھالیں تو؟ کیا میرا نقصان پورا ہوجاۓ گا؟
کیا میرا گھر محفوظ رہے گا؟
آہ ۔۔۔۔۔۔ بعض دفعہ بچے ایسے سوال کھڑے کرتے ہیں کے ہم ضمیر کی عدالت میں مجرم ثابت ہو جاتے ہیں ۔۔
اور ضمیر کے جرم کی سزا سے رہائی سواۓ عادلانہ تبدیلی کے اور کیا ہوسکتی ہے! عادلانہ تبدیلی ہی دنیا و آخرت کی ذلت اور عذاب سے رہائی کا سامان ہے