مضامین و مقالات

         بڑے بڑوں کا تکبر ٹوٹا گزے سال میں

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
گزرا ہوا سال 2024 تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ یہ سال جمہوریت کے لئے امید کی نظر سے دیکھا جائے گا ۔ امریکہ، جرمنی وغیرہ ممالک کے عوام نے اپنے مسائل کا حل دائیں بازو کے نظریہ میں دیکھا ۔ تو اسرائیل کی بربریت کے خلاف دنیا بھر کے لوگوں نے آواز اٹھائی ۔ لمبی جدوجہد کے بعد شام سے تانا شاہی کا خاتمہ ہوا، بنگلہ دیش کی مطلق العنان حکمراں کو عوامی احتجاج کی وجہ سے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا ۔ بھارت کی سیاست، معیشت، سماج و تہذیب میں ملک کے مزاج کے خلاف لکیروں کا ابھار اسی سال میں سامنے آیا ۔ آئین کے 75 برس بھی اسی سال پورے ہوئے اور آئین ملک کی سیاست میں ایشو بنا ۔ ایودھیا کے رام مندر میں وزیراعظم نریندر مودی کے ایونٹ میں ان کا اور بی جے پی کا ہدف، منشاء اور نشانہ صاف نظر آیا ۔
پہلی مرتبہ مودی اقتدار نے کھلے طور پر اظہار کیا کہ ملک میں ہندو ودای پارٹی ایک ہی ہے اور وہ ہے بی جے پی ۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب اور نریندر مودی کی پوجا پاٹ میں کارپوریٹ کا ہجوم، بالی وڈ کے ستاروں اور بڑے کاروباریوں کی موجودگی دکھاتی ہے کہ سب کچھ سمٹ رہا ہے ۔ ایسا لگتا تھا مانو چند کھلاڑی ملک کے وسائل اور اثاثوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے بے چین ہیں ۔ 2024 کے آغاز میں ایسا لگ رہا تھا کہ بی جے پی نے ہر قلعہ فتح کر لیا ہے ۔ اس کے اقتدار کو کوئی ہلا نہیں سکتا ۔ اس کی سیاسی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، وہ جو چاہے کر سکتی ہے ۔ حزب اختلاف کے ممبران پارلیمنٹ کو معطل کیا ۔ ایجنسیوں کے ذریعہ اپوزیشن پر دباؤ بنایا، پارٹیوں کو توڑا، ان کے ممبران کو بی جے پی کا حصہ بنایا ۔ یہاں تک کہ جن پر بی جے بد عنوانی کے الزامات لگاتے نہیں تھکتی تھی ان سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔ دو ریاستوں کے چنے ہوئے وزرائے اعلیٰ کو محض الزام کی بنیاد پر جیل میں ڈال دیا گیا ۔ ان کے بد عنوان ہونے کا خوب ڈھنڈھورا پیٹا اور کہا کہ کسی بھی بد عنوان کو بخشا نہیں جائے گا ۔ بغیر کسی ثبوت کے کئی مہینے جیل میں رکھا ۔ لیکن عدالت نے الزام ثابت نہ ہونے کی وجہ سے رہا کر دیا ۔
آئینی ادارے، انتظامیہ اور سرکاری ایجنسیاں پہلی مرتبہ بی جے پی کے زیر اثر اس کے لئے کام کرتی دکھائی دیں ۔ ان پر پارٹی کی بی ٹیم ہونے کا الزام لگا ۔ سیاسی اقتدار اور کارپوریٹ کے گٹھ جوڑ اور پارلیمنٹ میں اکثریت کی طاقت نے نہ صرف پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کیا بلکہ ہر چیز بونی نظر آنے لگی ۔ یہاں تک کہ آئین بھی چھوٹا لگنے لگا ۔ 400 پار کا نعرہ جس انداز میں دیا گیا وہ آئین میں یقین رکھنے والوں کو بے چین کرنے وال تھا ۔ آئین کا حلف لے کر ممبر پارلیمنٹ بننے والے یہ کہنے سے بھی نہیں چوکے کہ اگر 400 پار سیٹیں آئیں تو وہ آئین کو بدل دیں گے ۔ برسر اقتدار جماعت کے اسی تکبر کی وجہ سے آئین عام الیکشن میں بڑا مدیٰ بنا ۔ راہل گاندھی اور اپوزیشن نے ملک کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ آئین کا مطلب صرف ایک کتاب نہیں ہے ۔ بلکہ آئین کا مطلب برابری کا حق ہے جو ملک کی آزادی اور اس کی خود مختاری سے جڑا ہے ۔ انہوں نے لوگوں کو یقین دلا دیا کہ ان کا حق اور ان کے حصہ کے وسائل چھین کر کارپوریٹ کو دیئے جا رہے ہیں ۔ وہ دن دور نہیں جب ریزرویشن، غریبوں اور کمزوروں کو ملنے والی سہولیات ختم کر دی جائیں گی ۔ عوام نے اس بات کو سمجھا اور طاقت کے نشے میں چور آسمان میں اڑ رہی بی جے پی کو واضح مینڈیٹ نہیں دیا ۔
اسی سال میں ملک کے وفاقی نظام، جمہوریت اور روایتی آئینی نظام کو تار تار کرنے کی مثالیں بھی سامنے آئیں ۔
مرکز پر ریاستوں کے انحصار کی ایک نایاب مثال بھی اسی دور میں سامنے آئی ۔
مرکزی حکومت نے ریاستوں کے پیسے نہیں دیئے ۔ ممتا بنرجی سے لے کر ہیمنت سورین تک غیر بھاجپا سرکاروں نے اس کی شکایت کی ۔ جھارکھنڈ کے الیکشن میں ہیمنت سورین نے اسے مدیٰ بنایا ۔ انہوں نے عوام کو بتایا کہ ایک لاکھ 26 ہزار کروڑ روپے مرکز پر ریاست کے بقایا ہیں ۔ مرکزی حکومت یہ رقم نہیں دے رہی ہے ۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ البتہ الیکشن جیتنے کے لئے اس نے جھارکھنڈ میں اپنے نفرتی ایجنڈے کو زور شور سے آگے بڑھایا ۔ روٹی، بیٹی، ماٹی، بنگلہ دیشی، ہندو مسلم کا سوال اٹھایا لیکن جیت ہیمنت سورین کی ہوئی ۔ یہ سال اس لئے بھی اہم ہے کہ اس میں کارپوریٹ کی پولیٹکل فنڈنگ اور کرونی سرمایہ داری کا کھیل بھی کھل کر کھیلا گیا ۔ پالیسیاں بھی کارپوریٹ کے لئے بنائی گئیں ۔ حالانکہ حکومت کا کام عوام کی بہتری کے لئے پالیسی بنانا ہوتا ہے لیکن اس دور میں سب کچھ الٹ گیا ۔ سیاسی المیہ کے اس دور میں یہ بھی نظر آیا کہ کارپوریٹ دوست کتنا طاقتور ہو سکتا ہے ۔ اس کے مطابق اقتصادی پالیسیاں بنانی ہیں تو پارلیمنٹ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ پارلیمنٹ نہیں چل پارہی لیکن حکومت اڈانی کے سوال پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ۔
ملک کی سیاست کی خوفناک تصویر اسی سال میں ابھر کر سامنے آئی ۔ جس میں جمہوریت کی علامت پارلیمنٹ کی تعریف غائب دکھائی دی ۔ دیش کے سماجی، تہذیبی، ثقافتی پہلو صرف اور صرف بی جے پی کے سیاسی پولرائزیشن کے نعرے تحت گونجتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ ملک کی معیشت کارپوریٹ پونجی پر ٹکی اور سیاست کو چلاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ آزادی کے 78 برس اور آئین کے 75 سال پورے ہونے کے ساتھ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا نعرہ لگا ۔ دنیا کی تیسری معیشت بنانے  اور ملک کے 25 کروڑ لوگوں کو غریبی سے باہر نکالنے کا دعویٰ کیا گیا ۔ لیکن یہ کیسی صورتحال ہے کہ اسی کروڑ لوگوں کی زندگی پانچ کلو مفت راشن پر ٹکی ہے ۔ اس ملک کا بجٹ 6.5 کروڑ لوگوں کے ٹیکس سے ملنے والی رقم کی بنیاد پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس دیش میں نابرابر اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ بھاگیداری کا سوال خواب بن گیا ہے ۔ اس دور میں بھارت کی ترقی کا جو خاکہ پیش کیا گیا ہے ۔ اس کا بھارت کی جڑوں سے کوئی راستہ تعلق نہیں ہے ۔
اس بحرانی حالات میں اپوزیشن ایک امید کے طور پر ابھری ہے ۔ 2024 کے الیکشن میں اسے متوقع کامیابی تو نہیں ملی لیکن وہ عوام تک آئین کا پیغام پہنچانے میں کامیاب ضرور ہوئی ہے ۔ حالانکہ اپوزیشن کے اتحاد کو توڑنے کی برسراقتدار جماعت کی جانب سے مسلسل کوشش ہوتی رہی اور اب بھی ہو رہی یے ۔ مگر حزب اختلاف مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے ۔ ایسا اقتدار لمبے وقت تک خوشنما خواب میڈیا، اداروں، عدلیہ کے ذریعہ دکھا نہیں سکتا جس کی اپنی جڑیں عوام سے کٹ گئی ہوں ۔ شاید 2024 کا سب سے بڑا یہی پیغام ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button