
مسلمانوں سے زیادہ مظلوم کون؟ آپ کی لڑائی آخر کس سے ہے؟
بامسیف کے پٹنہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے سامعین اور اسٹیج پر بیٹھے ہوئے حضرات سے یہ میرا سوال تھا۔بامسیف 1988میں باقاعدہ وجود میں آیا۔
اس گروپ سے بڑے بڑے لیڈروں نے اپنا سیاسی کیرئیر شروع کیا۔ کانسی رام اوراب میشرام اسی بامسیف سے جڑے ہوئے ہیں۔ BAMCEf دراصل Backward and Minorities Community employs fedrationکا مخفف ہے۔اس میں ایس سی، ایس ٹی، پسماندہ اور اقلیتی طبقہ کے وہ لوگ شامل ہیں جو سرکاری نوکریوں میں ہیں اوردرج بالاطبقات سے آتے ہیں۔ اس طرح کا پلیٹ فارم بنانے کے پس پشت ایسی کمیونٹی میں بیداری پیدا کرنا تھا جو سماج کے مظلوم طبقوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔
کم لفظوں میں کہیں تو یہ پلیٹ فارم دلت پچھڑوں کے آئیڈولاگ کے طور پر کام کرتا آیا ہے۔ اس بحث سے بالاتر کہ یہ اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہوا ہے اور اسے ابھی کتنا کام کرنا ہے، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا یہ آر ایس ایس جیسے تنظیم کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہے، کیونکہ اس پلیٹ فارم پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ یہ خود آر ایس ایس کے شکنجہ میں ہے۔ تاہم ایسا کوئی ثبوت تو نہیں مگر اس کی کامیابی میں تاخیر سے اس طرح کا اندازہ لگایا جاتا رہا ہے۔شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ یہ پلیٹ فارم لیڈروں کو سیاسی کامیابی عطا کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔بامسیف کی دعوت پر جب مجھے پٹنہ طلب کیا گیا تو میں نے ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ جومیں پہلے لکھ چکا ہوں۔
آپ کی لڑائی کی نوعیت کیا ہے؟ آپ کی لڑائی سیاست سے ہے؟ یا سماجی برابری کی ہے؟ یا پھر مذہبی ہے؟ آپ نے مائنارٹی کو اپنے ساتھ کس شرط پر رکھا ہے؟انہیں کون ساعہدہ دیا ہے؟ بامسیف کو مسلمان کس نظر سے دیکھتے ہیں اور بامسیف مسلمانوں سے کیا چاہتا ہے؟
یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جو واضح ہونے چاہئے۔ جہاں تک دلتوں کی سیاسی لڑائی کا سوال ہے تو دلت سماج سے صدر جمہوریہ، کابینی وزرا، پارلیمیٹ اور اسمبلیوں میں دلت ممبران کی اچھی خاصی تعداد ہے جو گاہے بگاہے اپنی آوازیں بلند کرتی رہی ہیں۔ اگر آپ سیاسی لڑائی لڑ رہے ہیں تو آپ جیت چکے ہیں۔اب رہی بات سماجی اسٹیٹس کی تو متعدد ڈی ایم، ایس پی، افسران، ڈاکٹر اور پروفیسران سماج کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں۔ 49.5فیصد ریزرویشن نے دلت اور پچھڑوں کی زندگی کو بہتر بنایا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
گویا جس سوشل اسٹیٹس کی بات آپ لوگ کرتے ہیں وہ بھی آپ لوگوں کو مل چکا ہے۔ اب رہی مذہبی لڑائی، تو یہ لڑائی آپ کبھی جیت ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ اس لڑائی کو آپ کے آبا و اجداد نے بھی لڑا اور ناکام رہے۔ تنگ آکر باباصاحب امبیڈکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم ہندو میں پیدا ضرور ہوئے، لیکن مریں گے نہیں اور پھر وہ بدھ مت اختیار کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔
ہندو مذہب کی پیچیدگیاں آپ کی لڑائی میں کبھی آپ کو جیت دلا ہی نہیں سکتی۔ اس فرنٹ پر آپ کبھی جیت نہیں سکتے۔ لاکھ کوشش کیجئے مگر ہار آپ کا نصیب ہے۔
آپ سی ایم بن جائیں، ڈی ایم بن جائیں، مگر آپ پروہت نہیں بن سکتے اور بہت مشکل سے مندروں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ آپ کس سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔آپ کو بدھ بھی چاہئے، امبیڈکر جی بھی چاہئے اور ساتھ ہی بیکنٹھ سنوارنے کے لئے برہمن بھی چاہیے، تو جب برہمن آپ کی زندگی کا حصہ ہیں تو ان سے لڑائی کیا معنی رکھتی ہے۔؟
رہا سوال مسلمانوں کا تو، مسلمانوں کے مسائل دلتوں اور پچھڑوں جیسے نہیں ہیں۔ انہیں اپنے سماج میں اسٹیٹس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک ساتھ مسجد جا سکتے ہیں، امامت بھی کر سکتے ہیں، شادی بیاہ میں شریک بھی ہو سکتے ہیں، ہاں ذات کا سسٹم جو آپ لوگوں کے ہی مذہب سے سیکھا ہے وہ ذرا گہرا ہو رہا ہے، پھر بھی یہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہندو دھرم میں ذات ہے۔ اسلام میں ذات نہیں ہے
،
مسلمانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے۔ پھر بھی سماجی تناظر میں ہر ایک مسلمان کی اہمیت ایک جیسی ہی ہے۔ ہاں مسلمانوں کا مسئلہ اس کا معاش ہے۔ جو بغیر ریزرویشن کے اور بھی بڑھتا جا رہا ہے اور کاروبار کی کمر فساد کے نذر ہو گئی ہے۔مسلمانوں کا مسئلہ معاش ہے اور دلت اور پچھڑوں کا مسئلہ ذات ہے تو دونوں اس نکتہ کے ساتھ ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔
جہاں تک سیاسی معاملہ ہے تو یہاں پر بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ 1947کے بعد سے اب تک مسلمانوں کا کوئی سیاسی رہنما نہیں رہا ، لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ اسے اپنا قائد تسلیم کر لیا جو مظلوموں یعنی آپ لوگوں کاساتھ دینے کے لئے اٹھے۔ اسی لئے مسلمانوں نے کانگریس کو بھی اٹھایا، لالو کو بھی، مایاوتی کو، ملائم سنگھ کو، ممتا کو۔ کون ہے جسے مسلمانوں کا احسانمند نہیں ہونا چاہئے۔بغیر لیڈر کے مسلمانوں نے ووٹنگ کی جو بصیرت دکھائی ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا، مگر دوسری طرف دیکھئے، دلت اور پچھڑوں کے پچاسوں قائد ہوئے لیکن وہ اپنے ووٹرس کو سنبھال کر نہیں رکھ سکے۔ خود تو آگے نکل گئے، کمیونٹی کو وہیں چھوڑ دیا، جہاں وہ پہلے تھی۔
اور اب صورتحال یہ ہے کہ دلتوں کو مسلمان سب سے بڑا دشمن نظر آنے لگا ہے۔
لنچنگ ہو یامسلم محلے میں نعرہ بازی دلتوں کا جم غفیر حلق پھاڑ پھاڑ کر مسلمانوں کے خلاف چیختا نظر آتا ہے۔ ایسے میں اس آئیڈیالاگ پلیٹ فارم پر سوال کھڑا ہوتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو یہ بھی نہیں سمجھا سکا کہ مسلمان نے تو ان کے لیڈر کو ہی پارلیمنٹ پہنچایا تھا، مسلمانوں نے کب ان کے کنوئیں روکے، کب انہیں گھر میں گھسنے سے روکا۔جب اتنا بھی نہیں سمجھا سکے تو پھر وہ کیسے امید کرتے ہیں کہ مسلمان اب بھی ان کے ساتھ کھڑا رہے گاجبکہ سب کا ساتھ دیتے دیتے وہ خود ہی سب سے زیادہ کمزور ہو گیا۔ آج کے تناظر میں دیکھیں تو بھارت کی تمام کمیونٹیز میں مسلمانوں سے زیادہ مظلوم کون ہے ؟ سیاسی طور پر ان کا ساتھ دینے والا کوٸی نہیں۔ سماجی سطح پر نفرت کا جو کھیل کھیلا گیا اس سے وہ حاشیہ پر چلے گٸے۔
مذہبی طور پر ان کے تمام عقاٸد و رسوم پر پابندی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ایسے میں یہ امید تھی کہ جن لوگوں کا ساتھ مسلمانوں نے دیا وہ ان کا ہاتھ پکڑیں گے۔ مگر ہوا اس کے برعکس ۔ دلتوں کو یکایک مسلمان ہی دشمن نظر آنے لگے۔ایسے میں مسلمانوں کی شکایتیں واجب ہے کہ وہ دلتوں کا ساتھ کیوں دیں اور کس شرط پر دیں ۔دلت اور پچھڑا سماج مسلمانوں کی سیاسی شراکت داری پر اتفاق نہیں بنا پاتے۔
دلت،پچھڑا اور مسلمان ایک ساتھ ہو جائے تو سیاست بدل سکتی ہے، لیکن مسلمانوں کو سیاسی ساجھیداری کی بات آتے ہی تمام طرح کا اتحاد توٹنے لگتا ہے۔ خیر مسلمان کا مطلب ہی مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا وہ کھڑا رہے گا،لیکن اسے ٹھگنے کی اب کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اس نے سب کو بھانپ لیا ہے۔