
مضامین و مقالات
مسلمانوں میں مسلم ممالک کے خلاف غم و غصہ !
ریاض فردوسی۔9968012976
اسرائیل حماس کے مابین جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا وہ تو اپنے وقت پر ظاہر ہو ہی جائے گا لیکن اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں کا مسلم ممالک کے ساتھ جو لگاؤ اور محبت ہے اس میں کمی آ جائے گی۔ظالم اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو جبر و تشدد کر رہا ہے اسی کے پیش نظر ہماری قوم مسلم ممالک سے یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ وہ متحدہ طور پر اسرائیل کے خلاف کچھ کرے۔
مطالبہ تو یہاں تک تھا کہ تمام مسلم ممالک حماس کا ساتھ دیں اور اسرائیل کے خلاف جنگ کریں۔آخر ان کے دولت اور ہتھیار کس دن کام آئے گیں،لیکن ہماری قوم کو مایوسی ہاتھ لگی کیونکہ پورے عالم اسلام سے شدید مطالبہ کے بعد بھی مسلم ممالک نے سواۓ اسرائیلی بربریت کے مذمت کے علاوہ عملی اقدام کچھہ بھی نہیں کیا اور او آیی سی ( OIC) کی میٹنگ بھی ہوئ لیکن کوئی کرآمد اور مفید بخش قرارداد بھی پاس نہیں ہوۓ،صرف مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روک دینے کی دھمکی دی گئی لیکن یہ ایک محض دھمکی ہی ہے کیونکہ اگر عرب ممالک تیل کی سپلائی بند کریں گے تو ان ممالک کو بھی امریکہ اور اس کے معاون کی طرف سے بہت کچھ سپلائی بند ہو جائے گی۔
مسلم ممالک کی خاموشی اور غیر فعالیت کی وجہ سے جگہ جگہ مسلم ممالک کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے جا رہے ہیں،کہیں مظاہرے ہو رہے ہیں تو کہی مسلم حکمرانوں کی تصاویر پیروں تلے کچلے جا رہے ہیں۔مسلمانوں کے ان اقدام سے یہ ظاہر ہے کہ ان کے اندر کتنا فلسطینیوں کے لیے غم اور مسلم حکمرانوں کے خلاف غصہ ہے۔ مسلمانوں کے ان شدید غصہ کا شکار سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہیں کیونکہ ایسے نازک وقت میں جہاں فلسطینی عورتیں اور انکے بچے اسرائیل کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں،ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور دکھانے کے بجائے وہ اپنے ملک میں رقص اور ناچ گانے کا پروگرام کروا رہا ہے۔
ہم اپنے دینی بھایئوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اتنا کہوں گا کہ مسلمان ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔اسرائیل کے قیام سے لیکر آج تک عرب ممالک چار بار اسرائیل سے جنگ ہار چکے ہیں۔اس لۓ عرب ممالک کو نفسیاتی خوف ہے کہ اس بار بھی کہیں وہ اسرائیل سے جنگ ہار نہ جائیں،خاص کر ایسے وقت میں جب اسرائیل ایک طاقتور اور ایٹمی ملک بن چکا ہے۔بالفرض عرب ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ میں کود جاتا ہے تو ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیل تن تنہا پڑ جائے گا،ایسی صورت حال میں امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اسرائیل کے پشت پر کھڑے ہو جائے گیں۔
اگر عرب ممالک اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہو بھی جائیں گے تب بھی امریکہ اور اس کے ساتھی ممالک عرب ممالک کو چھوڑیں گے نہیں کیونکہ اسرائیل کی شکست امریکہ اپنی شکست سمجھے گا،ایسی صورت میں تیسری عالمی جنگ شروع ہو جانے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ویسے بھی قرآن مجید میں صاف حکم ہے اگرچہ یہودیوں پر ذلت کی زندگی تھوپ دی گئی ہے لیکن استشناء کی صورت حال میں جب تک امریکہ جیسی طاقت اسرائیل کے پیٹھ پر کھڑا ہے اسرائیل کا کچھ بھی ہم نہیں بگاڑ سکتے اور اسکی مثالیں بھی موجود ہے۔چار بار ہم اسرائیل سے جنگ ہار چکے ہیں۔موجودہ صورتحال میں حماس اسرائیل کا صرف کچھ حصہ ہی damage کرنے پایا ہے جبکہ اسرائیل فلسطین کا devastation کر چکا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حماس کو امریکہ اور دیگر یورپی ممالک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں،اب اگر عرب ممالک حماس کا ساتھ دیتی ہے تو اس کے معنی دہشت گردی کا ساتھ دینا ہوا،اسی سوچ کی وجہ سے عرب ممالک حماس کا ساتھ دینے سے گریز کرے گی اور عرب ممالک کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ اس پر دہشت گردی کا حمایت کرنے کا الزام لگے۔امریکہ کے لوگ عرب ممالک کا دورہ کر رہے ہیں اور انہیں خاص کر ایران اور ترکیہ کو جنگ میں نہیں کودنے کی صلاح دے رہے ہیں۔یہ کتنی متضاد بات ہے کہ امریکہ مسلم ممالک کو جنگ میں شریک ہونے سے روک رہا ہے اور دوسری طرف جنگ بندی بھی نہیں چاہتا اور بحیرہ روم میں اسرائیل کی مدد کے لیے جنگی جہازوں کو بھی بھیج رہا ہے۔
اس کے علاوہ ہر مسلم ملک کے اپنے اپنے مسائل بھی ہیں۔لبنان اور مصر کی اقتصادی حالت خراب ہے۔پاکستان کی ایکونومی اور بھی خراب ہے۔ وہاں مہنگائی سے لوگ پریشان ہیں۔الیکشن اپنے وقت پر ہو جائے وہی بڑی بات ہے۔پاکستان کسی طرح FATF Grey List میں جانے سے بچ پایا ہے۔ایسی حالت میں وہ کوشش کرے گا کہ وہ غیر جانبدار رہے۔ بحرین،قطر،اومان،یمن وغیرہ ممالک کی اوقات ہی کیا ہے۔عراق اور شام تو پہلے سے برباد ہے۔افغانستان میں ابھی چند سال پہلے ہی طالبان کی حکومت قائم ہوئ ہے۔طالبان دوحة محادہ میں امریکہ کے ساتھ وعدہ کر چکا ہے کہ اس کا ملک کسی بھی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم یا افراد کی حمایت نہیں کرے گا۔مسلم ممالک میں صرف دو ممالک ترکیہ اور ایران ہی مضبوط ہے لیکن ان دونوں ممالک کے حکمران صرف بول ہی رہے ہیں،کر کچھ بھی نہیں رہے ہیں۔ترکیہ کے صدر طیب اردگان جو مسلمانوں میں بہت زیادہ مقبول ہے وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھڑے بیٹھا ہوا ہے۔ترکیہ کے عوام بھی مظاہرہ کر رہے ہیں کے صدر اردگان اپنی فوج اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجے۔اب دیکھیے آگے کیا کیا ہوتا ہے۔
آخر میں !
فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے چھ نومبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں میں 25 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 11400 بچے بھی شامل ہیں یعنی اوسط ہر دس منٹ میں ایک بچے کی ہلاکت ہو رہی ہے۔اسرائیلی حملے میں غزہ کی پٹی پر33 دنوں میں30ہزار ٹن بارودی مواد گرایا گیاجس کے نتیجے میں 22 ہزار سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا اور 40 ہزار سےزائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں سرکاری میڈیا آفس کے سربراہ سلامہ معروف نے بتایا ہے کہ صہیونی فوجیوں کی مسلسل بمباری کے نتیجے میں 70 ایمبولینسیں تباہ، 113 صحت کے اداروں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور 18 اسپتالوں اور 70 مراکز صحت تباہ ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1.5 ملین شہری اپنے گھروں سے پناہ گاہوں یا رشتہ داروں کی طرف بے گھر ہوئے، غزہ میں 53 علما شہید ہوگئے جبکہ اسرائیلی قابض فوج نے 56 مساجد کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے اور 3 گرجا گھروں کو تباہ کر دیا۔اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک 79 صحافیوں کو شہید کیا گیا، پانی اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس اور پانی کے کنوں کو پہنچنے والے نقصانات کا مکمل اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔
قیامت قائم ہونے سے پہلے ہی موجود قیامت کے مناظر سامنے ہیں، لیکن مسلم ممالک غیروں کو خوش رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔
اس وقت بھی مسلمان خاموش تھا اب بھی مسلمان ھی خاموش ہے کیونکہ جہاں بھی کربلا جیسے حالات ہوتے ہیں مسلمان یا تو بک جاتا ھے چھپ جاتا ہے۔
فلسطین میں بچوں اور خواتین کے قتل عام پر انسانی حقوق کے علمبردار کیوں آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں؟
اے ساری دنیا کے رب!فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرما،
وہ لوگ بہت بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں،تیرے دین کی خاطر تیرے سچے مسلمان ظلم و بربریت کے شکار ہو رہے ہیں۔
میرے اللہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی،ماوں بہنوں کی،ان جوانوں کی،بوڑھے ماں باپ کی مدد فرما۔
میرے مالک میرے جیسے بے بس اور مجبور لوگ ہاتھ پھیلاۓ ہوۓ ہیں،ہماری دعائیں قبول فرما،ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو ظالموں سے نجات فرما،ارض مقدس کی پاسبانی اور پاسداری،اسلام کی حرمت کے لۓ لڑنے والے مجاہدین کو کامیابی عطا فرما۔
آمین یارب العالمین