
کیا بھارت میں آر ایس آیس کے ہاتھوں 1933 والا ہٹلری گھناؤنا کھیل دہرایا جائیگا؟
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
2024 عام انتخاب میں, بی جے پی مودی جی کے انتخاب ہارتے پس منظر میں،جرمن ہٹلر کا یہود مخالف کھیل کیا بھارت میں دہرایا جاسکتا ہے؟
کیا ہم آپ کو،متنبہ کرنا ضروری ہے؟ کہ عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں، جرمن نازی ازم کی روش پر وجود میں آئی، آرایس ایس کے, اس کی تاریخ پیدائش پر سو سال تکمیل یوم تاسیس 2025منانے وقت، سابقہ 9 سال سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے لئے، یوں انکی آپنی نااہلی ہی سے،2024عام انتخاب اقتدار سے باہر کا راستہ انہیں دکھانا، کیسے وہ قبول کرسکتے ہیں؟ خصوصا ایسے پس منظر میں جب امریکن کانگریس کے،عالمی سطح پر، نسل کشی پر نظر رکھنے والے ادارہ کے صدر گریگوری اسٹینٹون نے امریکی کانگریس میں آہنی پیش کی گئی رپورٹ میں،عالمی سطح پر ایسے نسل کشی فساد برپا کئے جانے والے،دس نکات میں سے آٹھ تا نو نکات پر بھارت میں ھندو شدت پسند تنظیم کی طرح سے اب تک مسلم اقلیت کے خلاف عمل درآمد کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے، صاف اشارہ کیا ہے کہ عالم کی سب سے بڑی آبادی والے ملک بھارت میں، وہاں کی 16 تا 20 فیصد مسلم اقلیت کے خلاف، کبھی بھی نسل کش فساد برپا کئے جا سکتے ہیں۔مختلف ھندو تیوہاروں کے موقع پر انکی کی طرف سے درشائے جانے والی آہنکار و پھنکار و ہتھیاروں کی پوجا پاٹ و کروڑوں ھندو بچوں بچیوں کو کھلے عام دی جانے والی حربی تربیت تناظر میں، ہم بھارتیہ مسلمانوں کی طرف سے مدافعتی تیاریاں کیا ہیں؟ مختلف نام نہاد سیکیولر پارٹیوں میں بٹے اور مختلف مذہبی تفکراتی فروعی مسائل میں الجھے ہم مسلمان، ایک دوسرے سے دست و گریبان ایک دوسرےکو ہی نیچادکھانے کے گر سے واقفیت جو ہم رکھتے ہیں، امریکن کانگرئس میں پیش ہوئی رپورٹ پس منظر میں اور 2024 انتخاب ہارتے پس منظر میں، سو سالہ یوم تاسیس آرایس ایس سے پہلے، ابھی سال بھر کے اندر پھلوامہ جیسا کوئی بڑا واقعہ دانستہ دہرایا جاتا ہے یا جیل میں قید تنہائی کاٹ رہے کسی مسلم ملزم کو، آگے کر پھلوامہ جیسا اس سے خطرناک کوئی واقعہ ظہور پذیر کیا جاتا ہے اور الزام مسلمانوں کے سر ڈالتے ہوئے، ارایس ایس بجرنگ دل رام سینا کے کروڑوں تربیت یافتہ شدت پسند نوجوانوں کو کھلی چھوٹ دئیے،2002 والے گجرات منظر نامہ کو دہرانے کی سعی کی جاتی ہے، تب بھارت کے ہم 30 کروڑ مسلمان، کیا اپنا مناسب دفاع کرپائیں گے؟ کیا ہم نے اس سمت تفکر و تدبر کیا ہے؟
بھارت کے موجودہ حالات اور 1933 کے جرمنی کے حالات کا موازنہ کر دیکھا جائے تو، کڑیوں سے کڑیاں ملاتے آرایس ایس، بی جے پی کے اپنے ارایس ایس یوم تاسیس 2025 سو سال تکمیل کے موقع پر،بھارت کو ھندو راشٹریہ مشتہر کرنے کے لئے، بی جے ہی کے پاس کسی بھی صورت 2024 عام انتخاب جیتنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا ہے۔ 2024 عام انتخاب کسی صورت جیتنے کے لئے، بھارت میں بڑھتی بے روزگاری ومہنگائی و عوامی غم و غصہ پس منظر میں، انکے پاس صرف ایک وی ایم چھیڑ چھاڑ جیت ہی ایک۔ماتر راستہ بچتا ہے۔ اسی لئے تو دیش واسیوں میں ای وی ایم پر بھروسہ قائم رکھنے کے لئے، 2023 کرناٹک انتخاب عوامی مرضی مطابق ہونے دیا گیا ہے اور ہوسکتا ہے مدھیہ پردیش اور راجھستان بھی عوامی مرضی مطابق نتائج آنے دیا جائے آور 2024 ای وی ایم چھیڑ چھاڑ مرکزی جیت بعد، وہ پھر سے کرناٹک، گوا، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا میں کھیلے گئے، اپنے پرانے ایم ایل اے خرید و فروخت کھیل سے، کانگریس زمام حکومت والی ریاستوں میں، آسانی سےدوبارہ کنول کھلا سکتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے نازی آقاء ہٹلر کے نقش قدم پر بھارت میں، مسلم نسل کش فساد برپاکرتے ہوئے، مسلم مخالف منافرتی پس منظر اپنی جیت ثابت کرتے، ای وی ایم مدد ہی سے، کسی بھی صورت 2024 عام انتخاب جیتنے کی کوشش کرتے کیا نہیں پائے جاسکتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر مسلم و سیکیولر دانشوران ھند و عالم کو سنجیدگی سے تدبر و تفکر کرنا چاہئیے۔ واللہ الاعلم بالتوفیق الا باللہ
"تاریخ کی کڑیاں اور جرمنی کی آگ”
https://encyclopedia.ushmm.org/content/en/article/the-reichstag-fire
یہ جنوری 1933 کا مہینہ تھا: جرمنی کے چانسلر ایڈولف ہٹلر کے پاس انتخابات میں جانے میں دو ماہ باقی تھے جن میں ہٹلرکےکمیونسٹوں کے ہاتھوں ہارنے کے امکانات بہت زیادہ تھے۔
لیکن فروری 1933 میں اچانک کچھ ہوا،کسی نے حکومت کا دفتر جلا دیا۔
جب آگ نے عمارت کے مرکزی چیمبر کو تباہ کر دیا- ہٹلر اپنے "من کی بات” بہت بڑا اعلان کرنے کے لئے 20 منٹ کے اندر جائے وقوع پر پہنچ چکا تھا
"یہ خدا کا دیا ہوا اشارہ ہے! اگر یہ آگ کمیونسٹوں کی کارستانی ہے، تو اب کوئی بھی چیز ہمیں اس قاتل کیڑوں کو آہنی مٹھی سے کچلنے سے نہیں روک سکتی۔” ہٹلر کی اس وقت کی "من کی بات” نے جرمن لوگوں میں کمیونسٹوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی تھی
مارینس وہ شخص تھا جسے نازیوں نے اس رات پکڑا تھا۔ اس نے آگ لگانے کا اعتراف کیا لیکن بار بار اصرار کیا کہ اس نے اکیلے یہ کام کیا ہے۔ اس کا کیمینسٹوں سے خوئی تعلق نہیں ہے۔ ہٹلر نے اعتراف پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس نے اس سے اپنے من میں پل رہی انتخاب کسی صورت جیتنے کی سازش پر عمل۔پیرا ہونے کے بارے میں فیصلہ کرلیا تھا وہ نازیوں کے سب سے قریبی حریف کمیونسٹ کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا حتمی فیصلہ من ہی من میں لے چکا تھا
اس نے حکم دیا کہ کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہر کسی کو گرفتار کیا جائے۔چند ہی دنوں میں، نازیوں نے 4,000 کمیونسٹوں اور ان کے رہنماؤں کو عجلت میں بنائے گئے جیلوں اور حراستی کیمپوں میں پھینک دیا۔ مارچ کے آخر تک – 20,000 اور موسم گرما کے آخر تک؟ 100,000 گرفتار شدگان جیلوں میں تھے۔
ایک لاکھ کمیونسٹ، سوشل ڈیموکریٹس، یونین آفیشلز، اور دیگر "بنیاد پرست” کو قید کیا گیا۔
کیا ان میں سے کوئی آگ کا ذمہ دار تھا؟ یہ سوال نازیوں کے لیے غیر متعلقہ تھا۔
انہیں اپنے دشمنوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا موقع مل چکا تھا، اور انہوں نے اس سے بھرپور فائیدہ اٹھا لیا تھا.
ایسی گرفتاریوں کو قانونی بنانے کے لیے 2 ہنگامی احکام وضع کئے گئے تھے۔
ان کا ایجنڈاتھا – "قوم اور ریاست کے دفاع کے لیے” اور "جرمن قوم کے خلاف غداری اور غداری کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا”۔
نازیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ "کمیونسٹ خطرے” کو کچل رہے ہیں۔
ہٹلر نے ایک نیا قانون پاس کیا جس نے حکومت کے خلاف بات کرنا جرم بنا دیا: میلیشیئس پریکٹس ایکٹ جس نے اختلاف رائے کے چھوٹے سے چھوٹے اظہار کو جرم بنا دیا۔ جن لوگوں پر سرکاری اہلکاروں کے بارے میں "گپ شپ” کرنے کا الزام تھا، انہیں گرفتار کر کے جیل یا حراستی کیمپ میں بھیجا جا سکتا تھا۔
جب انتخابات ہوئے: نازیوں نے 288 نشستیں جیتیں (ووٹ کا 43.9%)۔ کمیونسٹوں نے 81 نشستیں جیتیں (12.3%)، حالانکہ ان کے نمائندے ان نشستوں کا دعویٰ کرنے سے قاصر تھے- اگر وہ عوام میں ظاہر ہوئے تو انہیں فوری گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں نازی اقتدار میں آگئے۔
اس کے بعد کیا ہوا – دنیا کے لئے، جرمنی کے لئے اور اس بھنور میں پھنس جانے والے یہودیوں کے لئے اب بھی ہماری کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
اور تاریخ؟ یہ ایک کنارے سے انتہائی بے دردی سے مسکراتی پائی جاتی ہے، اس ایک شخصی چھوٹی سی چنگاری کو،جس نے وہ نازی ازم والی آگ بھڑکائی تھی جس کے شعلوں کی تپش سے جل مرجانے والی آہیں کراہیں تاقیامت شاید یاد رکھی جائیں گی۔
https://www.aljazeera.com/amp/news/2022/1/16/expert-warns-of-possible-genocide-against-muslims-in-india