مضامین و مقالات

کثرت تعداد کے باوجود عالم کے مسلمان معشیتی طور پریشان کیوں ہیں؟

 

۔ نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +9448000010

ا.پنے آپ کو سقم زد کرتے ہم اعلی تعلیم یافتہ مگر جاہل مسلمان
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=148185807795114&id=100078110860556
اللہ نے سورج کی روشنی والے دن کو، حصول رزق کے لئے، اور شب کی تاریکیوں والے حصہ کو نیند لیتے ہوئے آرام کرنے، تخلیق کیا ہوا ہے، لیکن زمانے کہ جدت پسندی اور ٹمٹاٹے بجلی کے قمقمون نے، خصوصا فی زمانہ سائبرمیڈیا مصروفیات نے، ہم انسانوں کو، خصوصا عالم کے ہم مسلمانوں کو، دن ڈھلے تک اپنے اپنے بستروں پر سوتے اور شب کی تاریکیوں میں اپنی چمکتی، آنکھوں سے، رات بھر جاگنے والے آلوؤں کی طرح، کسی نہ کسی بہانے دن ڈھلے تک سونے اور پوری پوری رات جاگنے والے،ہم جیسوں کے لئے، ہماری صحت کے متعلق اپنے 14 سو سال قبل اتارے گئے، قرآن مجید میں، رات بھر جاگنے کے نقصانات سے ہمیں آگاہ کر دیا تھا،لیکن ہم مسلمان، قرآن پر عمل پیرائی سے، اپنی جان بچانے کے لئے ہی شاید، قرآن سمجھ کر پڑھنے سے جان چھڑاتے پائے جاتے ہیں

قرون اولی کے ہمارے جد امجد خلفاء راشدین، تابعین، تبع تابعین کے زمانے تک، طلوع آفتاب سے غروب آفتاب کو، دن تصور کیا جاتا تھا اور غروب آفتاب کے بعد سے دوسرے دن سورج نکلنے تک کو شب مانا جاتا تھا۔ عموما”قبل مغرب گھر باہر کے سب کام ہی نہیں، نمٹائے نہیں جاتے تھے، عموما شب کے کھانے سے بھی نمٹ لئے جاتے تھے اور عشاء کے بعد تو بستر ہی پر عملا سوتے ہوئے، شب کی تاریکیوں سے فیض یاب ہوئے جاتے تھے۔ ابھی چار دہے قبل تک، ہمارے بچپن میں،قبل مغرب، رات کے کھانے سے فارغ ہونے کا رواج عام مسلم معاشرے میں رائج تھا۔ جسے زمانے کی جدت پسندی نے،اسلامی اقدار ترک کرنے سے بچنے کے لئے، ہمارے پشتینی جدی ماؤں کے،جین مذیب اقدار جلتی شمعوں کے سامنے، پلٹ پلٹ کر مرنے والے پروانوں کو،بچانے کا بہانہ بنا، شب کے دوسرے تیسرے پہر تک، جاگنے کی عادت معاشرے میں ڈالی گئی تھی۔ اب تو عالم یہ ہے کہ حیدر آباد چار مینار کے مسلم علاقوں سمیت، ممبئی منارہ مسجد،بھنڈی بازار، دہلی جامع مسجد کے آس پاس والی مسلم آبادیوں کے ساتھ ہی ساتھ، اکثرمسلم اکثریتی شہروں گاؤں میں،شب کے تیسرے پہر تک چاء قہوے و مختلف کھانے مہیا کرنے والے تجارتی مراکز کھلے رکھے، اپنے جدت پسند زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا تفخر، شب بھر جاگ کر، پیش کئے جاتے ہیں۔اس میں سے کتنے فیصد شب گزاری کے باوجود فجر کی نماز پڑھ کر،اپنے آپ کو حوالہ بستر کرتے ہیں اس کا اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے۔اس سے پرے خلاف شرع، وخلاف ماحولیات، عمل پیرا رہتے، ہم اپنے اپنے اجسام کو، شب کی تاریکیوں میں ہمارے جسم میں قدرت کے بنائے کارخانہ حیات، مختلف اقسام کے اسقام سے لڑنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے عمل سے محروم رکھے، زمانے کے گرد وغبار، و جدت پسند ادویات سے بنی، اشیاء خرد و نوش کو مستقل استعمال کرتے ہوئے، ماحولیات کے زیر اثر، نت نئی اسقام کا گھر،اپنے جسم کو بنائے،جہاں جی رہے ہوتے ہیں تو وہیں پر، ہمارے دینی اقدار ، صبح طلوع آفتاب بعد، آسمان سے بحکم رب کائینات، ایک مخصوص فرشتے کے آسمان کی نچلی سطح تک اترآتےہوئے،ہم انسانوں کو گھروں سے نکل، رزق تقسیم کرتے اپنے رب سے، اپنے اور اپنے آل کے مستقبل کے لئے، رزق محجوز کرنے سے کترائے ہوئے، بستروں میں دبکے سوتے ہوئے، اپنے اور اپنی آل کے لئے، رزق کے کھلے دروازوں کو،خود سے بند کررہے پائے جاتے ہیں

جس زمانے کی جدت پسندی کی دہائی دی جاتی ہے، کیا ہم ان حقائق سے واقعی روشناس ہیں، کہ فی زمانہ تمدنی صنعتی معشیتی ترقی پزیر یورپی ممالک، امریکہ، جاپان و چائینا تک، تمام ترقی پذیر ممالک، اپنے اقلیتی اوباش قسم کے تونگر زادوں کے عیش و عشرت کے سامان مہیا کرتے،کچھ مخصوص بازار، قحبہ خانے، شب بھر کھلے رکھے ہوئے ہوتے ہیں، وہیں اپنے ملک کی اکثریتی عوام و انکے رہائشی علاقوں میں، قرآن اولی کے ہم مسلم حکومتوں والا نظام حیات، جدت پسند ناموں کے ساتھ، آج تک رائج ہے جہاں پر،بعد عشاء شب کے دوسرے پہر کے بعد، تمام تجارتی مراکز بند رکھے جاتے ہیں ،بلکہ کسی بھی شہری کو اظہار آزادی حق رائے دہی کے نام پر، اپنے بند گھروں میں تک، شور و غل و اونچی آواز میں میوزک سننے تک پر پابندی عائد ہے۔ یہی نہیں رہائشی علاقوں میں بعد وقت عشاء، بے ضرورت اپنی گازی کے، ہارن بجانے پر بھی جرمانے اوصولے جاتے ہیں۔ایک طرف ہم مشرقی و عرب ممالک کے مسلمانوں نے، مغرب کے اقدار کو اپنانے کے بہانے سے، اپنے اسلامی اقدار سے منھ موڑا ہوا ہے، وہیں پر جدت پسند تہذیب کے دعویدار یہ مغربی دنیا، مختلف جدت پسند ناموں سے ایک حد تک، اسلامی اقدار ہی پر عمل پیرا رہتے، دنیوی ترقیات کے مختلف سنگ میل عبور کرتے چلے جارہے ہیں

ہم ھند و پاک کے مسلمان اپنے آس پاس بسنے والے سناتن دھرمی ھندوؤں کے، اپنے آسمانی ویدک اقدار کو،کس قدر مضبوطی سے تھامے،صبح طلوع آفتاب سے قبل اٹھتے ہوئے، نہا دھوکر، اپنےسوریہ نمسکار، پوجا ارچنا سے، اپنے دن کی شروعات کرتے ہوئے، حصول دنیا میں دن بھر منہمک رہتے، کیسے معشیتی طور مضبوط و مستحکم ہوئے جارہے ہیں؟اور ہم مسلمان ہیں، اپنے نبی آخرالزماں محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ کی تعلیمات سے بے بہر، ہزاروں سالہ عالم قبر و برزخ و بعد محشر تاابد عیش و عشرت کی زندگانی کی فکر سے آزاد، دنیوی چند سالہ عیش و عشرت سمیٹنے ہی میں مست دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں، رب رزاق دوجہاں مالک ارض و سماوات، جس نے اپنے عالم ارض و سماوات کو خود ساختہ طور چلتے رہنے کے لئے، جو خودکار نظام وضع کیاہوا ہے، اس کے برخلاف تقسیم رزق کے صبح کے وقت سوتے رہنے والے ہم مسلمانوں کو، اپنے وضع نظام قانون کے خلاف، رزق و جاہ حشمت خود سے لاکرتھوڑی نا دیتا پھریگا؟ اسلئے زوال بغداد و غرناطہ و استنبول بعد، جب سے ہم عالم کے مسلمانوں نے، اپنے رب کے احکامات سے ماورائیت حاصل کی ہوئی ہے،اس نے بھی ہم عالم کے مسلمانوں کو،اپنی 200 کروڑ کثرت تعداد کے باوجود 2 فیصد یہود کے ہاتھوں رسوا و بے بس لا چھوڑا پے۔ آج بھی عالم کے مسلمان، خصوصا ھندو یاک و پاک بنگلہ دش کے ہم 70 کروڑ مسلمان بھی، اپنے اللہ کے قرآن و حدیث والے احکام پر چلنے لگیں اور اپنے درمیان والے غرباء و مساکین کی، شہر مدینہ کے،انصار و مہاجرین والے جیسا حسن سلوک کرنے لگیں، اسوئے رسول ﷺ،ایک تہائی پیٹ ثقیل کھانا کھاتے،ایک تہائی پیٹ مشروب پیتے، اور ایک تہائی پیٹ اپنے نظام ہاضمہ کو فرصت و مہلت دینے خالی رکھتے، اور سورج کی روشنی والے دن کو حصول معاش و ترویج دین کے لئے مختص کریں اورشب کی تاریکیوں میں، دنیا جہاں کی مخلوقات کی طرح، آرام کرنے یا سونے ہی کے لئے وقف کردیں تو، یقینا رب دو جہاں کی طرف سے نازل ہونے والی تمام تر خیر و برکات سے مستفیض ہوتے ہوئے، ہم بھی عالم کی سربراہی کی دوڑ میں آگے آسکتے ہیں۔ فیس بک لنک میں دئیے گئے معلوماتی کلپس کو،گر غور سے سناجائےتو، جدت پسند دنیا کے اعلی سائینس دانوں کی تحقیق نے، قدرت کے، ہمارے دماغ میں ایک مٹر کےدانے برابر، ایک مخصوص خلیہ رکھتے ہوئے، زمانے کی بدلتی تغیر پسندی و کیمیاوی زہر آلود آب و ہوا، سے، ہمیں مہلک بیماریوں سے نجات دلانے ہی کے لئے، شب کی تاریکیوں میں مختلف اقسام اسقام سے لڑنے نپٹنے والے ویکسین نما ادویات پیدا کرنے کا خود کار نظام جو ودیعت کیا ہوا ہے، ہم اعلی عصری تعلیم یافتہ ترقی پزیر انسانوں نے، دن بھر سوتے ہوئے، اور شب کی تاریکیوں میں غیر قدرتی روشنیوں میں نہاتےجاگتے ہوئے، قدرت کے اس ویکسین نما ادویات پیدا کرنے والی خود کار صلاحیت سے، انسانی جسم کو ماورا رکھے، کینسر جیسے اسقام میں خود کو جکڑنے چھوڑ رکھا ہے۔ ایسے میں دن ڈھلے تک سوتے ہوئے، ہم مسلمان اولا” قدرت کے نظام تقسیم رزق سے خود کو ماورا یا ونچت رکھے ہوئے تھی ہی، اوپر سے شب کی تاریکیوں میں جاگ جاگ کر، ہمیں کینسر سمیت مختلف مہلک بیماریوں سے بچانے والے،قدرت کے خودکارنظام ہمارےاجسام میں پیدا ہونے والے، ویکسین نما غدود پیدا ہونے ہی نہ دیتے ہوئے، ہم مہلک بیماریوں میں دانستہ مبتلا ہوئے،دانستہ معشیتی مشکلات کے شکار بن ریے ہیں۔ ان تمام امور کو دیکھ سمجھ ہم خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اور اقوام کے مقابلے ہم ایک چوتھائی سے زیادہ عالم انسایت کے ہم 2،000 ملین مسلماں، اغیار کے مقابلے نہ صرف معشیتی طور پسماندہ ہیں بلکہ مہلک اسقام کے شکار پریشان حال بھی ہیں۔وما التوفیق الا باللہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button