مضامین و مقالات

شریف النفس صحافی عامر سلیم خان

کچھ لمحات وہ ہوتے ہیں جس میں آپ کا وجود مکمل طور پر فالج زدہ محسوس ہوتا ہے اور آپ کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ میرے وجود میں گھنی تاریکیوں کا بسیرا ہے اور ہمیشہ کے لیے ناپید ہوچکی عامر سلیم بھائی کی دلکش مسکراہٹیں۔ میں دلی گیٹ کے قریب واقع تاریخی قبرستان مہدیان میں عامر سلیم خان بھائی کو سپرد خاک کرکے آرہا ہوں۔ یہ وہی قبرستان ہے جس میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی، مملوک علی نانوتوی، مجاہد آزادی علامہ حفظ الرحمن سیوہاروی، عتیق الرحمن عثمانی اور شاعر تغزل مومن خان مومنؔ کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میں علماء، صوفیاء اور علم وادب کی ناقابل فراموش شخصیات دفن ہیں۔
آج کا دن عامر بھائی کے چاہنے والوں کے لیے کافی سخت دن ہے، جب ہم لوگوں کے حالات یہ ہیں تو ان کے گھر والوں کی کیا بات کی جائے، یہاں سب سے زیادہ جاں کنی کی صورت حال یہ ہے کہ عامر سلیم بھائی کی اہلیہ اور ان کے چھوٹے چھوٹے تین بچے ‘ابان’، ‘امان’، اور ‘ایان’۔ ان میں سب سے بڑا بیٹا قریب چودہ برس کا ہوگا۔ اللہ ان بچوں کا اقبال بلند کرے۔ یہاں میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ کسی کی ساری زندگی مدد تو نہیں کی جاسکتی البتہ اپنے خلوص ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے کچھ کوششیں ضرور کی جاسکتی ہیں تاکہ عامر بھائی کے بچوں کی تعلیم کے راستے آسان ہوسکیں۔ اردو صحافیوں کے مالی حالات کیا ہوتے ہیں یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات تو ہے نہیں۔ عامر سلیم خان کے والد چودھری سلیم خان بھی گزشتہ ایک ماہ قبل دہلی میں ہی میں انتقال کرگئے تھے اور اب تک عامر بھائی اس صدمے سے نکل نہیں سکے تھے۔ 9دسمبر رات تقریباً 11بجے عامر بھائی کو دل کا دورہ پڑا اور دہلی کے جی بی پنت اسپتال میں داخل کرائے گیے، تب سے لیکر آج تک وینٹلی لیٹر پہ تھے، آخر کار آج 12دسمبر بروز پیر دوپہر تقریباً ایک بجے انہوں نے آخری سانس لی اور اپنے چاہنے والوں کو روتا بلکتا ہوا چھوڑ گیے۔
عامر سلیم خان کی مختصر زندگی پر روشنی ڈالی جائے تو وہ 1974میں اترپردیش کے ضلع بستی میں واقع قصبہ ‘کوہڑا’ میں پیدا ہوئے اور اعلی تعلیم کی غرض سے غالباً 1987میں دہلی کا رخ کیا۔ جامعہ اسلامیہ سنابل دہلی اور مدرسہ ریاض العلوم، جامع مسجد دہلی سے فضیلت کی سند حاصل کی۔ میدان صحافت میں بھی ایک طویل عرصہ گزارا۔ روز نامہ راشٹریہ سہارا، روزنامہ ہندوستان ایکسپریس میں 2006تا 2008تک رہے۔ اس کے بعد 2008سے تاحال روزنامہ ‘ہمارا سماج’ میں صحافتی ذمہ داری ادا کر رہے تھے۔ رپورٹر سے لیکر ایڈیٹر تک کا سفر طے کیا۔ ساتھ ہی عامر سلیم بھائی کی یہ سعادت رہی کہ وہ مدرسہ رحیمیہ مہدیان، دہلی میں استاذ کے فرائض انجام دیے اور دفتر انچارج بھی رہے۔ یہاں میں عامر بھائی کے لیے لفظ سعادت کا استعمال اس لیے کر رہا ہوں کہ دراصل مدرسہ رحیمیہ دہلی کی وہ قدیمی درس گاہ ہے جس کی بنیاد حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے والد محترم حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی نے اورنگزیب کے دور حکومت میں رکھی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ اور آپ کے صاحبزادے شاہ عبدلعزیز محدث دہلوی بھی اس درس گاہ میں تعلیم دیا کرتے تھے۔
عامر سلیم بھائی کی حیثیت محض ایک صحافی کی نہیں تھی بلکہ وہ ایک عالم و فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کہنہ مشق شاعر اور سادہ سلیس شستہ نثر بھی لکھتے تھے۔ ان کی شاعری پر صحافتی رنگ غالب تھا۔ سیاسی شخصیات اور انتظامیہ پر ان کا طنزیہ لہجہ قابل توجہ ہوا کرتا تھا، نمونے کے طور پر ان کا ایک شعر ملاحظہ کریں:
"میں عدلیہ کی دو رنگی پہ اب بھی حیراں ہوں
سزا مجھے ہے ملی جب کہ جرم اس نے کیا”
عامر سلیم بھائی سہل ممتنع میں اپنے کلام کہا کرتے اور سماج کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ عامر سلیم بھائی نے نعت گوئی میں بھی طبع آزمائی کی، ان کی نعت کا ایک مصرع:
"جب نعت لکھوں حضرت حسان کی صورت
ہر لفظ میں تاثیر ہو قرآن کی صورت”
عامر سلیم بھائی کی صحافت اور ان سے میں اپنے تعلقات کی بات کروں تو میں نے روز نامہ انقلاب سے باضابطہ 2011 میں رپورٹنگ کا آغاز کیا تھا، جبھی سے رپورٹنگ کے دوران عامر سلیم بھائی سے ملاقات ہوا کرتی تھی اور کئی دفعہ دہلی اور بیرون دہلی سفر کا بھی موقع ملا۔ میں نے کسی بھی ادارے میں عامر بھائی کے ساتھ کام تو نہیں کیا البتہ ان کے ساتھ فلڈ میں اتنا وقت ضرور گزارا ہے جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکوں کہ وہ ایک لازوال صحافی کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسان بھی تھے، جنہوں نے کبھی بھی منافقت نہیں کی، ہر انسان سے عاجزی و انکساری اور فراق دلی کے ساتھ ملا کرتے تھے۔ عامر بھائی اپنے مزاج کے منفرد انسان تھے، وہ دوسروں کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کی خوش مزاجی کا نتیجہ ہی تھا کہ ان کا ہر ساتھی ان سے ہنسی مزاق کے موقعے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے کبھی سینئر اور جونیئر کی تفریق نہیں رکھی، ورنہ صحافیوں کے حالات تو یہ ہیں کہ کچھ دن جرنلزم میں گزرنے کے بعد یا عہدے ملنے کے بعد اپنے سابقہ ساتھیوں کو پہنچانا تک گوارہ نہیں کرتے۔ لیکن عامر سلیم بھائی اس فطرت کے قطعی نہیں تھے۔ بغیر کسی عمر کی قید کے ان کے ساتھیوں میں سید شعیب رضا فاطمی، مرحوم سلیم صدیقی، عاطف، مرحوم انور جعفری، ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی، فرحان یحیحی، سہیل قاسمی سے لیکر عینین، وسیع عثمانی،راحم اور اکرم تک سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ ان کے ساتھیوں کی طویل فہرست ہے، کیوں کہ ان کا کوئی دشمن تھا ہی نہیں۔ ان کی خوش اخلاقی کا عالم یہ تھا کہ کوئی ایک بار ان سے ملتا تو ان کا گرویدہ ہو جایا کرتا تھا۔ کچھ مواقع ایسے آئے جس میں عامر بھائی میری بھی اصلاح کیا کرتے اور کہا کرتے عینین بھائی ہر بات پر کان دھرنے، غصہ کرنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کچھ چیزیں در گزر بھی کرنی ضروری ہیں۔ عامر سلیم بھائی مسلکی اختلافات سے پرہیز کیا کرتے تھے۔ بلکہ جن باتوں سے اختلافات کا شائبہ بھی محسوس ہوتا اسے نظر انداز کر دیا کرتے۔ لیکں میں ان لکھنے والوں میں ٹہرا جسے پر حملے سے لیکر متعدد عدالتی نوٹس کا سامنا تک کرنا پڑا ہے۔ دراصل لکھنے کے معاملے میں عامر بھائی توازن برتتے تھے، لیکن اپنی بات کہنے سے گریز نہیں کرتے، اشاروں کنایوں میں اپنی بات کہہ دیا کرتے تھے، ان کی تحریروں کا وصف طنزیہ لہجہ تھا اور حکومتوں کے خلاف تو کھل کرلکھا کرتے تھے۔ ان کی آخری رپورٹ "یکساں سول کوڈ” کے تعلق سے قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین جسٹس ارون مشرا کے موقف کے حوالے سے ہے۔ جس میں ان کی خبر نگاری کا لہجہ دیکھا جاسکتا ہے۔
جہاں اردو صحافیوں کا معاملہ محض خبر تک محدود رہا کرتا ہے اس کے برعکس عامر سلیم بھائی مذہبی گفتگو، صحافت، شاعری سے لیکر سیمناروں میں مقالات تک پیش کیا کرتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ایک دو سمیناروں میں مقالہ پیش کرنے کا بھی موقع ملا، ان کا اسلوب سادہ تھا لیکن تہہ داری تھی۔ مختلف تقریبات میں ہم دونوں ایوارڈ سے بھی نوازے گیے، مثلاً اردو پریس کلب صحافت کے سرتاج ایوارڈ، دہلی حج کمیٹی وغیرہ شامل ہے۔ مختلف ملی تنظیموں کی کوریج کے لیے اجمیر شریف اور جے پور سفر کا بھی موقع ملا۔ خواجہ غریب نواز کی بارگاہ میں عامر سلیم بھائی کی مؤدبانہ حاضری آج بھی یاد آتی ہے۔ وہ جس کے ساتھ رہتے اسے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اسی کے ہیں۔
یوں تو عامر بھائی سے فون پر اکثر و بیشتر باتیں ہوا کرتی تھیں، لیکن ان سے آخری ملاقات ان کے والد کے انتقال کے دوسرے دن ہوئی اور مختلف پہلوؤں پر باتیں بھی ہوئیں۔ انتقال سے قبل 6دسمبر کو عامر سلیم بھائی نے مجھے کال کی تھی اور یہ عامر سلیم بھائی سے میری آخری گفتگو ثابت ہوئی۔ اللہ پنجتن کے صدقہ و طفیل میں عامر سلیم بھائی کے درجات بلند فرمائے۔۔۔۔۔۔

سید عینین علی حق

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button