تازہ ترین خبریںدہلی

منٹو کے حس جمال کا محور ذاتِ انسانی اور جوہرِ انسانی ہے:پروفیسر انور پاشا شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے زیر اہتمام منشی نولکشور یادگاری خطبے کا انعقاد

نئی دہلی (۲؍ مارچ): شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقدہ منشی نولکشور یادگاری خطبے میں معروف ادبی نقاد اور دانشور پروفیسر انور پاشا نے ’’منٹو کی جمالیات‘‘ کے عنوان سے ایک پر مغز اور فکرانگیزخطبہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں جمالیات کے نظری مباحث اور سعادت حسن منٹو کے جمالیاتی پہلوؤں کو انتہائی گہرائی اور بصیرت کے ساتھ پرکھا۔ انھوں نے منٹو کی تحریروں میں پوشیدہ انسانی نفسیات، معاشرتی تضادات، طبقاتی تصادم اور معاشرے کی حقیقی صورت حال کو اجاگر کرنے کی منفرد صلاحیت پر مفصل روشنی ڈالی۔ اس حوالے سے انھوں نے منٹو کو ایک مشاق صیقل گر قرار دیا جو قاری کے حس جمال کی صیقل گری کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ایسے انسان کا نقش گر ہے جو بظاہر مکروہ اور بدطینت ہے لیکن باطن میں ازلی و ابدی انسانی جوہر سے مالامال ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ منٹو کے حس جمال کی گردش کا محور ذاتِ انسان اور جوہرِ انسان کے عرفان پر ہے۔ منٹو کی جمالیات صرف الفاظ کی خوبصورتی تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک ایسا آئینہ ہے جو معاشرے کے چہرے پر موجود داغوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ منٹو کے یہاں جمالیات کا تصور روایتی تصور جمال سے مختلف ہے کیوں کہ ہر منظر ناظر کے لیے مختلف تناظر رکھتا ہے، لہٰذا منٹو ناظر کی حیثیت سے خوبصورتی کو تلخ حقائق میں ڈھونڈتا ہے اور یہی اس کی عظمت ہے۔ بظاہر مکروہ اور بد طینت و بداعمال انسانوں میں وہ عرفان ذات اور جوہر ذات کے اعلیٰ مظاہر تلاش کرتا ہے۔فاضل مقرر نے کہا کہ منٹو کے کردار محض کاغذی کردار نہیں ہیں، بلکہ وہ معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اورمنٹو کا ہر کردار اپنی مکمل انفرادیت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔

صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر کوثر مظہری نے صدارتی خطاب میں موضوع پر مہمان مقرر کی گرفت اور موضوع کے قابل فہم اظہار کی ستائش کی۔ خطبے کی افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے انھوں خطاب کو انتہائی معلوماتی اور فکری اعتبار سے مالا مال قرار دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس خطاب نے منٹو کے فن کو نئے زاویوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا اور اس کے افسانوں میں پنہاں فکری گہرائی اور اعلیٰ انسانی اقدار کو سمجھنے میں مدد دی۔ صدر شعبہ نے طلبا کو شکیل الرحمن کی کتاب ’’منٹو شناسی‘‘ کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا اور منٹو فہمی کے حوالے سے اس کتاب کو بے حد اہم قرار دیا۔اس یادگاری خطبے کے کنوینر پروفیسر سرورالہدیٰ نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ خطبے کے آغاز میں منشی نولکشور کا تعارف پیش کرتے ہوئے ان کی ادبی اور اشاعتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ ساتھ ہی انھوں نے مہمان مقرر کا بھی تفصیلی تعارف پیش کیا۔ پروگرام کا آغاز شعبے کے طالب جناب محمد اسجد کی تلاوت اور اختتام ڈاکٹر مشیر احمد کے اظہارِ تشکر پر ہوا۔
اس خطبے میں پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر جاویدحسن، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ، ڈاکٹر نوشاد منظر، جناب حنبل رضا اور جناب محمد عارف کے علاوہ بڑی تعداد میں شعبے کے ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات موجود تھے۔
نوٹ برائے تصویر: (دائیں سے بائیں: پروفیسر سرورالہدیٰ، پروفیسر کوثر مظہری اور پروفیسر انور جمال پاشا)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button