مضامین و مقالات

ایک سو چالیس لروڑ بھارت کے،کم و بیش 30 کروڑ ہم مسلمانوں کیلئے شرم کی گھڑی

۔ نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707

باتیں تو ہم بڑی بڑی کرنے کے عادی ہیں لیکن عملی میدان میں جب چار پیسے دینے کی بات آتی ہے تو ہر کوئی بغلیں جھانکتا پایا جاتا ہے، الجبیل سعودی عرب کے ہمارے ہوٹل، سی شور میں، میڈیا اہمیت اپنے پروگرامات کے تسلسل کی چوتھی کڑی کے طور، مملکت آئے،آئی پلس ٹی وی کے محترم زید پٹیل کے اعزاز میں،جب ہم نے ایک شاندار میڈیا آگہی پروگرام منعقد کیا تھا تو الجبیل میں مصروف تجارت ایک ساتھی نے، بھارت میں آزاد میڈیا ھاؤس نیوز چینلز قائم کرنےکے لئے، اپنے طور خود سے کروڑ روپے دینے کی بات کی تھی لیکن محترم زید پٹیل کے دعوتی چینل کی مدد کے لئے، نقد رقم ہزاروں ریال سے آگے نہیں بڑھ پائی تھی، آج یہ سن کر انتہائی افسوس ہوا کہ ساڑھے چار سال تک دعوتی نشریات ہی کے لائسنس سے، اپنی مفید تر نشریات سے، سوا دو کروڑ بھارتیہ گھروں میں دیکھا جارہا آئی پلس دعوتی چینل ،وہ بھی اپنی نشریاتی فیس ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے، وقتی طور بند کردیا گیا ہے۔( دوسال پہلے تحریر مضمون۔ شاید اب دوبارہ نشریات جاری ہوچکی ہوگی) بھارت میں ہم مسلمانوں کی آبادی کم از کم 20% ہی تصور کریں تو 140 کروڑ آبادی بھارت میں اٹھائیس کروڑ مسلمانوں کے دیش میں، آئی پلس جیسا مسلمانوں کا دعوتی نشریاتی لائسنس یافتہ مفید تر چینل ،چند لاکھ روپئوں کی ادائیگی میں تنگ دامانی پاتے، سوا دوسو کروڑ گھروں میں اپنی مفید نشریات سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس بھارت دیش میں، ایسے کئی سو کروڑ کے مالک، ہزاروں کی تعداد مسلمان تجار و زمین دار موجود رہتے ہوں گے، جو بذات خود اپنےاپنے طور ذاتی نیوز میڈیا ہاؤسز چلانے کی استطاعت رکھتے ہوں، ایک دعوتی مشن ہی کے بہانے سےمفید اسلامی معلومات لئے،ای پلس ضروری چینل، سوا دو کروڑ بھارتیہ گھروں میں دستک دینے سے محروم کردیا گیاہے، یہ سن کر افسوس ہوتا ہے
ایسے موقع پر،سائبر میڈیا پر گردش کرتا بھوپال کی اس غریب مفلس مسلم بستی کی یاد دلاگیا جہاں پر اس کورونا قہر کہرام میں، بھوپال ہی کی صاحب حیثیت امیر امراء پر مشتمل این جی او رمضان المبارک مہینے کی برکات سمیٹنے اور اپنے آس پاس پڑوس کے مفلس و بےروزگاروں کی داد رسی کرنے، اپنے افطار کٹ لئے ریلوے پھاٹک کے متصل ایک غریب جھونپڑپٹی میں پہنچ جاتے ہیں تو جھونپڑپٹی کے بظاہر مفلس نظر آنے والے، یومیہ مزدوری سے اپنے آل کی پرورش کرنے والے غریب مکینوں کو، اپنے سے زیادہ عمل و قلب کے امیر پایا ۔ دراصل شہری امراء این جی اوز کم از اپنے اللہ کی رضا حاصل کرنے اپنی استطاعت سے کم بہت سارے افطاری کٹ لئے، یہ سوچتے ہوئے کہ ان کی مدد سے غریب و مفلس یومیہ مزدور ایک وقت کا افطار تو اچھی آغذیہ سےکرلیں گے، لیکن وہ امراء این جی اوز، اس غریب بستی میں جاکر اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ جنہیں وہ انتہائی مفلس سمجھتے تھے اپنے جیسے روزانہ کمائی کرنے والے انیک غریبوں کی کمائی سے، چندہ اوصول کر، کئی کئی دیگ بریانی پکائے، ان کے گھروں کے پاس سے گزرنے والی ریلوے ٹریک سے گزرتی، پرواسی مزدوروں کی ٹرینوں کے، کئی کئی دنوں کے بھوکے پیاسے پرواسی مزدوروں میں بریانی پاکیٹ اور ٹھنڈے پانی کی مبرد تھیلیاں تقسیم کرتے پھر رہے ہیں۔ یقینا کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے، غریب و مفلس کی بھوک و پیاس کا احساس، اپنی بیاہتا اردھانجلی کی پرورش کی فکر سے تک ماورا، دس لاکھ کا سوٹ ایک وقت میں پہننے والے، کروڑوں کی مالیت والے قلم سے دستخط کرنے والے،اور کروڑوں دیش واسیوں کی امانت حکومتی ریسورسز کو اپنے سنگھی گجراتی دوستوں میں بانٹتے ہوئے، انہیں عالم کے امیر ترین پونجی پتی بنانے والے، غیر تعلیم یافتہ دیش کے پرائم منسٹر کو غریب کی بھوک و پیاس کا احساس کیسے ہو؟غریبوں کی بھوک و پیاس کا احساس تو دیش کے غریبوں کو ہی ہوتا ہے۔ بھوپال ریلوے کراسنگ کے پاس کی، مسلم مزدوروں کی
جھونپڑپٹی کے مفلس مکینوں کو، کروڑوں پرواسی مزدوروں کے بھوک و پیاس کا کما حقہ احساس تھا اسلئے وہ اپنی محنت کی محدود کمائی کے بھی ایک حصہ کو، اپنے جیسے مفلس نادار پرواسی مزدوروں تک، ایک وقت کا پیٹ بھر لذیذ کھانا پہنچاتے ہوئے، اس رمضان المبارک مہینے میں، اپنے اللہ کو راضی کرنے میں مست پائے جاتے ہیں آئی پلس ٹی وی کے تعلیم یافتہ محترم زید پٹیل صاحب اگر اپنے دعوتی مشن والے ٹی وی چینل کو تا دیر زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے بھارت کے امراء و تونگروں سے ملاقاتیں کر، ان سے پیسے مانگنے کے بجائے بھوپال ریلوے کراسنگ والی مسلم جھونپڑپٹیوں کے مفلس و غریب مسلم مزدوروں سےملاقاتیں کرتے ہوئے، انہیں میڈیا آگہی کا پاٹھ پڑھواتے ہوئے، ان سے ہی چندہ مانگے ہوتے تو یقیناً ان غریبوں کی حالت زار 140 کروڑ دیش واسیوں تک صحیح انداز پہنچانے ہی کیلئے، وہ غریب مزدور دل کھول کر اتنا چندہ دئیے ہوتے کہ آئی پلس دعوتی چینل کو بند ہونے کی کگار تک نہ پہنچنا پڑتا۔ وما علینا الا البلاغ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button