مضامین و مقالات

ہم بھارت کے مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب پر ہمیں غور کرنا ہوگا

 

 

۔ نقاش نائطی

۔+966562677707

 

"چمنستان بھارت کےاٹوٹ انگ، مسلم اکثریتی آسام کے 28مسلمان مرد ونساء، اسلام دشمن سنگھی آسامی حکومتی فیصلے کی رو سے،غیر ملکی قرار اور زبردستی ڈینٹشن سنٹر منتقل” ایک جبر

"اناللہ وانا الیہ راجعون آج وہ، کل ہماری باری ہے”

 

جو یہ سمجھتے ہیں ہماری باری نہیں آئے گی، تو نرے بے وقوف ہیں۔آج آسام کے 28 مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دئیے، انکے اپنوں کے سامنے، انہیں کھینچ کھینچ کر، بسوں میں لاد کر،نازی سنگھیوں کے سعوبت خانے،ڈیٹنشن سینٹر بھیجا گیا ہے۔ کل انکے مرنے کی یا ماریے جاتے یاخود کشی کرنے کی خبر آئے گی۔ اور ہم مسلمان اس واقعہ کو بھول جائیں گے اور پھر کچھ دنوں بعد،یہی کھیل کسی اور جگہ کھیلا یا دوہرایا جائیگا پھر کچھ دن خبریں گرم رہیں گے اور پھر وہی خاموشی۔ مرغیاں بیچنے والے کے ڈربے میں بند، سب مرغیوں کو یکے بعد دیگرے یوں ہی، اس کے ہاتھوں پکڑ پکڑ کاٹ کاٹ کہیں اور منتقل ہونا ہے۔ مقدر کو ٹالانہیں جاسکتا ہے۔لیکن موت اچھی اور بابرکت والی ہوگی یا رضالت اور شرمندگی والی،اسے چننے کا اختیار بے شک ہمارا ہوسکتا ہے اور یہ سب ہم مسلمانوں میں، ہمارے اسلاف کے پاس موجود، جہادی جذبات کی کمی کی وجہ سے ہے۔ برحق موت سمجھتے ہوئے موت کو گلے لگانے کے فقدان اور ڈر کی وجہ سے ہے۔رزق متعین ہونے کا ایمان رکھنے والے ہم مسلمانوں کو،اپنے اللہ کے رزاق ہونے کے ایمان و یقین میں کمی ہوتے،اپنے اور اپنی اولاد کی رزق حصول حالات سے سمجھوتہ کرنے کی ہماری فکر سے ہی یہ سب معاملات جڑے ہوئے ہیں۔ ایمانی قوت ہم مسلمانوں میں مضبوط کرنے کے بجائے، فضائل اعمال کا لالچ دئیے، ہمیں ذکر و اذکار وسنن صوم و صلواہ میں محو مصروف کرنے کے فن دین اسلام نے ہی، ہم میں،اہل سنہ و الجماعہ کے مبارک نام نامی سے، شرک و بدعات و خرافات شیعہ رافضی کو اپنے دین اسلام کا حصہ بنانے کے مواقع پیدا کئے ہیں۔ ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا اور ہم جنت کے مستحق نہیں یوسکتے ہیں جب تک ہم، اپنے رزاق دوجہاں کے مکمل ‘رزاق کل’ ہونے اور وقت و جاء موت متعین ہونےکا یقین کامل اپنے میں جاگزیں نہ کرسکیں۔ ہمارے رزق و موت ڈر سمجھوتوں نے ہمیں ان کفار و مشرکین کی طرح گلی کا کتا، اپنی گلی کا شیر بنادیا ہے۔ہم اپنی گلیوں میں، پنجرے میں بند شیر کی ڈھاڑنے کی نقل کرسکتے ہیں،لیکن ہماری ڈھاڑ کے زیر و بم سے بھی دشمن اسلام قوتیں ہمارے حوصلوں، ہمارے جذبات کا پتہ لگا لیتی ہیں،اسی لئے ہم 300 ملین ہندستانی مسلمانوں کے ڈر و خوف سےماورا، وہ ہم مسلمانوں پر ظلم و جبر کا کوئی نہ کوئی تجربہ بھارت کے کسی نہ کسی صوبے حصہ میں کرتے ہی رہتے ہیں۔

سنگھی آسامی حکومت کی طرف سے غیر ملکی قرار دئیے گئے 28 مسلمان کیا واقعی بنگلہ دیشی ہیں؟

https://x.com/Mohammedfarooq8/status/1831297326578561296?t=hFTDR81MYRx3k_A91U2SYg&s=08

جب دشمن اسلام قریش نے مدینہ میں ہجرت کئے، ہم مسلمانوں کو مدینہ پر یلغار کئے، نیست و نابود کرنے ہی کی نیت سے، مکہ سےہزاروں جنگجوؤں کے لشکر کو لئے،مدینہ پر چڑھائی کی نیت،مدینہ کی طرف کوچ کرگئے تھے۔ اور جب یہ خبر خاتم الانبئاء محمد مصطفی ﷺ تک پہنچی تھی، تب آپ ﷺ ،تمام مسلمانون کو مسجد نبوی میں جمع کئے، ذکر و اذکار کی مجالس کا انعقاد کئے، نماز پڑھے دعا مانگے، اپنے اللہ کو آمادہ کئے،کفار مکہ کے لشکر جرار کو، صحرائی طوفان میں ہلاک کروا سکتے تھے۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے اس نظرئیے پر عمل پیرائی کے بارے میں بالکل ہی نہیں سوچا۔ لوگوں کو جمع کیا۔ اس میں لڑنے لائق بچوں بڑوں بوڑھوں سمیت 313 کو لئے پیدل ہی کفار مکہ سے جنگ کرنے ،مکہ کے راستے پر چل نکلے۔ مقام بدر پر کفار و مسلمین دونوں قافلوں کا آمنا سامنا ہوا۔ آپ ﷺ نے کفار کے لشکر جرار کے سامنے، اپنے جوانون کو، مورچہ بند،پہلےکروایا اور پھر اپنے خیمہ کے اندر جا نماز پڑھ، اپنے اللہ سے دعا مانگی کہ وہ پاک پروردگار میں نے تو، اپنے بس میں موجود تمام تر ذرائع استعمال کئے، کفار کے لشکر جرار سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب اگر تیرا ساتھ نہ رہا تو تیر نام لیوا اس دھرتی پر باقی نہ رہیگا۔ یہ ہوتا ہے وصف رسول ﷺ، پہلے مدافعتی کوششیں ہوتی رہیں اور پھر دعا کی جائے۔ تو رب دو جہاں کی طرف سے مدد آنے کی کچھ امیدیں رکھی جاسکتی ہیں۔آج کے ہم مسلمان مجاہدانہ جد و جہد کو ترک کئے، صرف ذکر و اذکار و رب کریم سے دعا مانگنے ہی میں،ہم مست و مگن ہیں۔ وہ رب دوجہاں جو اپنے آخری رسول ﷺ کا اپنے ذرائع استعمال کر،اپنےساتھیوں کے ساتھ، محاذ جنگ پر آنے کا منتظر تھا اور جس کفار کے لشکر جرار پر اس وقت مٹھی بھر مسلمانوں کو فتح نصیب کروائی تھی وہ ہم مسلمانوں میں، آج بھی ‘چنگاری حرارت جذبہ جہاد’ کے پھڑکنے کا، کیا منتظر نہیں پایا جاسکتا ہے؟ آج بھی کچھ سرپھرے نکلیں ہم مسلمانوں کو اکیلے میں پکڑ پکڑ کر ، ان پر ظلم کئے،ان سے زبردستی اپنے بھگوان کا نام رٹائے انہیں بے دردی سے قتل کرنے والے قاتلوں کو چن چن کر کیف کردار تک پہنچائیں گے تو پھر دیکھئے ہم مسلمانوں پر ہاتھ اٹھانے کی، ان سنگھی درنگوں میں ہمت ہی باقی نہ رہے گی۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دین صراط مستقیم اور سلف و صالحین کے اثاث پر چلنے اور اپنے دفاع کی بھرپور کوشش کرنے والے ان اسلافصحابہ رضوان اللہ اجمعین تابعین تبع تابعین مسلمانوں میں سے بنائے۔ وما علینا الا البلاغ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button