اسلامیات،افسانہ و غزلیات

خانقاہ: مرکز رشد و ہدایت

خانقاہ درحقیقت خلق خدا کی خدمت، نفوس کی اصلاح وتربیت ،تعلق بااللہ ،ایمان اکمل، اور فکر آخرت کے حصول کی جگہوں کو کہتے ہیں، اس دولت بیش بہا ونعمت عظمی کے حصول کی تڑپ لے کر آنے والے افراد کو سالکین طریقت کہتے ہیں، اور یہ نعمت خداوندی جس کی معرفت حاصل کرتے ہیں، اس کو شیخ کہتے ہیں، وہ شیخ جس مکان یا مقام پر بیٹھ کر یہ مبارک کام انجام دیتا ہے، اس کو خانقاہ کہتے ہیں، خانقاہ، اور درگاہ، میں فرق یہ ہے کہ شیخ باحیات جس جگہ بیٹھ کر سالکین، ومریدین، کو راہ سلوک، طے کراتے ہیں، اس کو خانقاہ کہتے ہیں، اور وفات یافتہ شیخ جس جگہ دفن ہوتے ہیں، اسکو عوام کی زبان میں درگاہ کہتے ہیں، باطنی تعلیم وتربیت، نیز تزکیہ نفوس ،وتعلق باللہ، کے حصول کے طریقوں کو سلوک، وطریقت، یاتصوف کہتے ہیں، خانقاہ میں تہذیب اخلاق، ترتیب اخلاق، تہذیب نفوس، اصلاح احوال باطنی، کے ہر ایک گوشہ کو خوب اچھی طرح سے سمجھایا، بتلایا، اور سکھایا جاتا ہے، اصلاح نفس کیوں ضروری ہے ، نفس کی مکاریاں کیا کیا ہے ،اور انکا علاج کیا ہے، نفس کے حیلوں بہانوں اور شیطانوں کے حملوں سے کیسے بچاجائے، اعمال صالحہ کی حفاظت کیسے کی جائے ،انکی تمام تدابیر کو شریعت محمدی کی روشنی میں خانقاہ میں بتایا، سمجھایا اور سکھایا جاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کی برکت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، آپ کی ادنی سی قربت ومعیت سے پاک، صاف ،طاہر، ومطہر ہوجاتے تھے، آپ کے بعد جوں جوں وقت گذرتا گیا روحانی کمزوری آتی چلی گئ، اس لئے بعد کے حضرات مشائخ نے خاص کر حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے،حرص حوص کی زیادتی، دنیاوی امور میں انہماک، آخرت سے غفلت، تقوی وطہارت میں تیزی سے کمی، واقع ہونے کی وجہ سے اصلاح باطن کے لئے قرآن وسنت کی روشنی میں اصول وضوابط مقرر فرمائے، ان میں صحبت صالحین ،کثرت ذکراللہ ،واتباع سنت کو سب سے مقدم رکھاگیا، اور یہیں سے اصلاح وتربیت کے لئے خانقاہ کی داغ بیل پڑی، اور یہیں سے خانقاہی سلسلہ چل پڑا، جو آج تک کسی نہ کسی صورت میں جاری وساری ہے، اصلاح وتربیت کے لئے سب سے بہتر جگہ خانقاہ ہے،

عام طور سے خانقاہ کا جب نام ذہن میں آتا ہے، تو بےساختہ ایک چھوٹی سی کٹیا یا گھاس پھوس کے ایک جھونپڑے کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے، جہاں کوئی شیخ طریقت ، رہبر شریعت ، صاحبِ دل، ولی کامل، جلوہ افروز ہو، اوراللہ کے بندے اس کی خدمت میں حاضری دے کراللہ کی یاد کےطریقےسیکھتے ہوں، پتہ نہیں کیوں یہ تصور خانقاہ کے نام کے ساتھ وابستہ ہے٬ حالانکہ خانقاہ نہ تو کسی خاص عمارت کا نام ہے، نہ کسی مخصوص جگہ کا، بلکہ یہ ہر ایسے مقام کا علامتی عنوان ہے، جہاں سے کسی مرشد کامل کے ذریعے ’’ مئے محبت‘‘ کی تقسیم ہوتی ہو، اور تشنگان ِمعرفت کو جامِ عشق، اور ساغر معرفت، سے سیراب کیاجاتا ہو ، زمانہ قدیم میں عام طور پر بزرگانِ دین ولی کامل ، شیخ طریقت، کچے مکانات اور خس پوش جھوپری میں رہاکرتے تھے،اور’’ فقروفاقہ‘‘ کی تلخیوں سے گزرکرسالکین ومریدین کو راہِ سلوک طےکراتےتھے، کچے مکان اورخس پوش جھوپرے کی مناسبت سے ان کے قیام کی جگہوں کو ’’خانقاہ‘‘ کہاجانے لگا یعنی پھوس کا جھونپڑا۔ خانہ فارسی میں مقام (جگہ ) اور کاہ گھاس پھوس کو کہتے ہیں، اصلاً یہ لفظ’’خانہ کاہ‘‘ تھا، کثرت استعمال نے اسے ’’خانقاہ ‘‘بنادیا، اللہ کی یاد میں ڈوبے ہوئےاللہ کی مخلوق کی خدمت اوران کی اصلاح کا درد سینے میں رکھنے والے وہ باخدا انسان جنہیں ’’ولایت کا تاج ‘‘ پہنایا جاتا ہے ، اور جن کے دلوں کو’’ تجلی گاہِ ربانی‘‘ بننے کا شرف حاصل ہوتاہے٬ دنیا کی آسائشوں سےکنارہ کش ہوکر طاعت و عبادت،اور رشدو ہدایت میں مصروف رہتے ہیں،اور ایک جہان کو اپنے نفسِ سے گرماتے رہتے ہیں، ان کی تمام تر عبادت و خدمت کا محور و مرکزبس ایک اللہ جل جلالہ کی مبارک اور پاکیزہ ذات ہوتاہے ، ان کی کوششوں اور کاوشوں کا قبلۂ مقصود بھی ایک ہوتا ہے، اللہ کی رضا اوراس کی خوشنودی کی تلاش ، اللہ کے مبارک نام کی عظمت کے لئے وہ جیتے ہیں اور اسی باعظمت نام کا ذکر کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ قرآن مجید کی یہ آیات ہیں۔ قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ.(سورہ انعام، آیت۱۶۲،۱۶۳)
(آپ کہہ دیجئے بیشک میری نماز، میری قربانی اور میرا جینا ، مرنا اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کی پرورش کرنے والا ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم دیا گیا ہے٬ اور میں سب ماننے والوں میں پہلا ہوں۔)
حضرت شیخ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ رات کی تنہائی اورتاریکی میں جب اللہ جل جلالہ کے ساتھ رازونیاز کی باتیں کرتےتو بڑے درد قرب اور سچے جذبے کے ساتھ فارسی کے دو شعر بھی پڑھا کرتے تھے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے

میری چاہت یہ ہے کہ میں ہمیشہ تیری محبت کے ساتھ جیئوں،
میں مٹی ہوجاؤں اور تیرے قدموں سے لپٹ کر رہوں،
مجھ حقیر و غلام کا مقصود دونوں جہانوں میں تیری ہی ذات ہے،
تیرے لئے ہی میں مرتا ہوں اور تیرے لئے ہی جیتا ہوں۔

اولیاءاللہ نے جینے کا یہ ڈھنگ٬ زندگی گزارنے کا یہ طریقہ کسی اور سے نہیں خود شہنشاہِ کونین جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے توازن و اعتدال کے ساتھ دنیا برتنے اور آخرت بنانے کی جو تعلیم دی اور جس طرح دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے دور رہنے اور دنیا والوں کو فائدہ پہنچانے کی تلقین فرمائی، اوراس پر خود عمل کرکے دکھایا، خانقاہ میں اسی نمونۂ عمل کو اہل اللہ نے اپنایااور اپنے بعد والوں کو اپنانےکی تعلیم دی۔
خانقاہ میں جب سالک ’’ اللہ،اللہ ‘‘ کی ضربیں لگاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈوب کر درودپڑھتا ہے، ماضی کی غلطیوں اور گناہوں پر شرمندہ ہوکراستغفار کا وردکرتا ہے۔تو آہستہ آہستہ اس کا دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت سے لبریز ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کےاندر ’’ بندگی ‘‘ کا مزاج تشکیل پاتاہے۔ پھر اس کے لئے عبادت بوجھ نہیں بنتی،’’ بلکہ لذت کا ذریعہ ‘‘ ہوجاتی ہے۔ اور پھر یہ کیفیت ہوجاتی ہے، کہ ادھر اللہ کا نام زبان پر آیا، اورادھر دل عظمت و محبت کے جذبات سے مچل اٹھا، اور تناہوا سرعظمت کے احساس سے جھک گیا،

یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی
کہ تیرا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی

اس مرحلے تک پہنچنے کے بعد انسان اپنے آپ کو ’’بہترین سانچے‘‘ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، اور وہ چاہتا ہے کہ اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو حرزِ جاں بنالے ۔ کن فی الدنیا کانک غریب اوعابرسبیل(دنیا میں اس طرح رہو جیسے مسافر یاراستہ پار کرنے والا رہتاہے)
دنیا کے سب سے عظیم ترین انسان کا یہ عملی نمونہ کہ ’’ فقرو فاقے‘‘ سےگزرکر مہینوں پانی اور کھجور پرگزارا کیا جارہاہے، اور کلفت و اذیت کو برداشت کر کےصبر کے بلند ترین درجات حاصل کئے جارہے ہیں، جب یہ منظر نگاہ کے سامنےسے گزرتا ہے،تو پھردنیا کی عظمت سالک کے دل سے نکل جاتی ہے، اور وه دنیا کی آسائشوں اورراحت کے اسباب کو کوئ خاص اہمیت نہیں دیتا، اور اللہ تعالیٰ سے ایسا گہرا تعلق اور ایسی غیر معمولی نسبت اسے حاصل ہوجاتی ہے کہ تنگدستی و خوشحالی ، صحت مندی اور بیماری، مصیبت اور نعمت، راحت اور تکلیف میں اسے ہرحالت میں اطمینان ہی اطمینان رہتا ہے، اسلئے نہیں کہ بیماری اورتنگدستی ، مشکلات، اور پریشانیاں اس کے لئے ضرر رساں نہیں ہوتیں بلکہ اس لئے کہ اسے ہروقت یہ احساس رہتا ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی مرضی سے ہے
نہ فراق اچھا نہ وصال اچھا
یارجس حال میں رکھے وہی حال اچھا

مختلف احوال اور مختلف معاملات میں اللہ کے مخلص بندوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کا دل پکار پکار کر یہ کہتا ہے

خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے
کہ ہیں عارضی اور کمزور سارے

وہ کمزوری سے قوت کی طرف، ذلت سے عزت کی طرف ، مخلوق سے خالق کی طرف اور تنگی سے وسعت کی طرف جاتے ہیں اور اسی راہ پر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اس لئے کہ اللہ کی مرضی یہی ہے

خانقاہ: روحانی شفاخانہ ہے

انسان کا بدن جس طرح بیمار ہوتاہے، اسی طرح اس کی روح اور قلب دونوں بھی بیمار ہوتے ہیں، اور جس طرح جسمانی بیماری کے لئے معالج اور شفاخانے کا ہونا ضروری ہے،اسی طرح روح وقلب کے علاج کے لئے روحانی معالج اور شفاخانے کا ہونا ضروری ہے، اسی روحانی اور قلبی شفاخانےکا نام خانقاہ ہے، جہاں روح وقلب کا علاج ہوتا ہے، مسیح الامت حضرت مولانا شاہ مسیح اللہ خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس طرح امراض جسمانی کے لئے شفاخانے ہوتے ہیں، اسی طرح خانقاہیں روحانی شفا خانےہیں، تاکہ یکسوئ اور اطمینان کے ساتھ کسی قدر ذکر واذکار کے ذریعہ خود اپنے نفس کی اصلاح کا کام انجام پاسکے، اور دوسرے لوگوں کے لئے اس کا واعظ اور بیان موثر ثابت ہو،

مدارس میں خانقاہ قائم کئے جائیں

ہمارے مشائخ واکابر کا اتفاق ہے کہ مدارس کے اچھے نتائج اور استحکام کے لئے ہرمدرسہ کے ساتھ خانقاہ کی ضرورت ہے، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ذکراللہ سے ساری دنیا کا وجود ہے جب کوئ اللہ اللہ کہنے والا نہ ہو گا تو کارخانہ عالم نیست ونابود کردیا جائےگا، یعنی قیامت قائم کردی جائے گی، جب اللہ اللہ کہنا ساری دنیا کے وجود کا باعث ہے، تو کیا اللہ اللہ کی کثرت مدارس کے استحکام کا سبب نہیں ہے، اس لئے میری خواہش ہے کہ مدارس میں ذاکرین کی جماعت ہونی چاہئے، نیز فرمایا کہ میری تمنا اور آرزو تھی کہ مدرسہ اور خانقاہ ساتھ ساتھ ہوں، تاکہ طلباء حصول علم کے ساتھ ذکراللہ میں بھی مشغول ہوں اس لئے کہ سارے فتنوں کا سدباب ذکراللہ کی کثرت ہے (مجالس ذکر 2بحوالہ خانقاہی معلومات ص39)
اسی سلسلے کی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے پیر طریقت مفلح الامت حضرت مولانا احمد نصر بنارسی صاحب سجادہ نشیں خانقاہ امدادیہ بنارس نے جامعہ نعمانی مصباح العلوم ہرپوروا عالم نگر باجپٹی سیتامڑھی بہار میں خانقاہ کا افتتاح 2جون 2023بروزجمعہ بعد نماز عصر تا عشاء سیکڑوں علماء کرام کی باوقار موجودگی میں کیا

اوپرجو احوال ذکر کئےگئے ہیں ان سےگزرگزرکراور مجاہدات کی بھٹّی میں تپ تپا کر بڑی قابلِ قدر ہستیاں اور بڑے اونچے انسان سامنے آئے جن کے ذریعے ذکروفکراورتزکیہ و احسان کی شمعیں روشن ہوئیں اور لاکھوں انسانوں نے فیض پایا

مستند رستے وہی مانے گئے
جن سے ہوکرتیرےدیوانے گئے
لوٹ آئےجتنے فرزانے گئے
تا بہ منزل صرف دیوانے گئے

آئیئے آپ کو خانقاہ امدادیہ بنارس لئےچلتے ہیں جو پیر طریقت رہبر شریعت مفلح الامت حضرت جی مولاناشاہ احمد نصربنارسی صاحب دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ امدادیہ بنارس کی سرپرستی میں تقریباً چالیس سالوں سے جاری وساری ہے،اس خانقاہ کی مختصر تعلیمات اور معمولات سے روبرو کراتے ہیں ، خانقاہ امدادیہ بنارس کے شب و روز میں بعد نمازِ فجر کی مجلس میں طلبہ اساتذہ نیز خانقاہ میں آنے والے مہمانان شریک ہوتے ہیں، مقتدی حضرات میں سے بھی کبھی چند افراد شریک ہوتے ہیں، تقریباً تینوں مجالس میں مجموعی طور پر یہی صورتحال رہا کرتی ہے،
مجلس نمبر ایک بعد نمازِ فجر
سورہ فاتحہ ایک مرتبہ، آیت الکرسی ایک مرتبہ، سورہ آل عمران کی کوئ چار آیات کی تلاوت کے بعد ایک مرتبہ درود پڑھکر، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ایک سو مرتبہ، استغفراللہ ایک سو مرتبہ، یامغنی یاغفورایک سو مرتبہ، اللہم عافنی واعف عنی ایک سو مرتبہ، اللہم ارفع عنا البلاء والوباءایک سو مرتبہ، آیت کریمہ ایک سو مرتبہ، پڑھکر پھر درود پاک ایک مرتبہ، پڑھ کر فوراً ذکراللہ شروع کر دیا جاتا ہے، اور یہ سلسلہ پانچ سات منٹ تک رہتا ہے، اور مجلس ختم ہو جاتی ہے، آگے اپنی اپنی مرضی کے مطابق تلاوتِ قرآن کریم، یا دیگر اذکار میں لوگ لگ جاتے ہیں، بعض لوگ گھروں کو چلے جاتے ہیں، اور بعض لوگ نماز اشراق پڑھکر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں، بعد نمازِ عصر بھی قدرے ترمیم کے ساتھ تسبیحات پڑھکر دعا ہوتی ہے، اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں ، بروز جمعہ بعد نمازِ عصر سورہ نباء کی تلاوت کے بعد درود شریف کی مجلس ہوتی ہے، موسم کے اعتبارسے کمی زیادتی کر لی جاتی ہے، اورخصوصی دعاوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، عام طور پر نمازِ مغرب سےدس پندرہ منٹ پہلے دعا مکمل ہو جاتی ہے، یہ سلسلہ تقریباً چالیس سالوں سے جاری وساری ہے اللہ تعالیٰ کرم فرما کر اسکو قبول و مقبول فرما کر رحم فرمائے آمین، ہاں رمضان میں بعد نمازِ فجر، ظہر، عصر، وعشاء میں بھی وقت و موسم کے اعتبارسےم جالس مختصر یا کچھ طویل ہوتی ہے

محمد صدر عالم نعمانی
صدر علماء بورڈ ہند

9006782686

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button