تازہ ترین خبریں

ادارہ ادب اسلامی ہند چکھلی کے زیر اہتمام مشاعرہ کا کامیاب انعقاد ترقی اس زمانے کی مجھے اچھی نہیں لگتی  ڈوپٹے  کے بنا بیٹی مجھے اچھی نہیں لگتی (عامر سہیل موہالہ)

چکھلی ضلع بلڈانہ۔ ۹ ستمبر

خصوصی رپورٹ ۔ذوالقرنین احمد

چکھلی میں ادارہ ادب اسلامی ہند کے تحت ۹ ستمبر بروز سنیچر کو عمر فاروق مدرسہ شادی خانہ میں بعد نماز عشاء ڈاکٹر اسرار کی صدارت میں محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں اطراف و اکناف کے مشہور شعراء اکرام نے شرکت کی

ادارہ ادب اسلامی ہند مہاراشٹر کے سیکریٹری جناب غلام فرید نے نعتیہ کلام سے مشاعرہ کا آغاز کیا

پھیلی دنیا میں جب روشنی آپ کی،

 سب نے تسلیم کی برتری آپ کی

رہبر یوں تو لاکھو ہوئے ہے مگر

منفرد سب سے ہے رہبری آپ کی

مقامی شعراء کرام، عاقب ضمیر ، شہزاد سر، کلیم کہف، مجیب خان ،ساجد خان ساجد ،فروز صادق، طاہر شاداب نے اپنے کلام سے نوازا

مدعو شعراء میں جناب یسین تنہا صاحب نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے کہاں

جو خود کو بڑا سمجھے وہ رہبر نہیں ہوتا

ہر شخص کا کردار برابر نہیں ہوتا

جھک کے ملنا بھی ایک قیامت ہے

لوگ بزدل سمجھنے لگتے ہیں

 موہالہ سے تشریف لائے عامر سہیل نے اپنے کلام کے ذریعے یہ کہنے کی کوشش کی کہ تعلیم نسواں آزادی نسواں کے نام پر لڑکیوں کے سروں سے دوپٹے چھین لیے گئے

ترقی اس زمانے کی مجھے اچھی نہیں لگتی

ڈوپٹے  کے بنا بیٹی مجھے اچھی نہیں لگتی

شاکر خان شاکر نے خوبصورت ترنم مین اپنا کلام پیش کرتے ہوئے سامعین کو محظوظ کیا۔

خوشبو تیری باغ خیالات میں آئے

میلہ کوئی جیسے دیہات میں آئے

جناب ایڈووکیٹ متین طالب نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے موجودہ معاشرے میں رشتوں کی حقیقت کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا

آج کل بات کی گہرائی سمجھتا ہے کون

جھوٹ کے دور میں سچائی سمجھتا ہے کون

جھوٹی دنیا کے سبھی لوگ ہے جھوٹے یاروں

بھائی کہتے ہیں مگر بھائی سمجھتا ہے کون

جناب غلام فرید نے ملت کی سادہ دلی اور لاشعوری کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا

جس پیڑ کی شاخوں پر سانپوں کا بسیرا تھا

ہم سادا پرندے بھی اس پیڑ پہ جا بیٹھے

ملنا بھی بچھڑنا بھی دستور زمانہ ہے

اس بات پہ کیا کوئی طوفان اٹھا بیٹھے۔

خبیب تابش صاحب نے ترنم کے ساتھ سحر انگیز کلام پیش کرتے ہوئے کہا

لوگ سحرول بیاں بولتے ہیں

ہم کہ اردو زبان بولتے ہیں

عشق اپنی تشہیر خود ہی ہے

عشق والے کہا بولتے ہیں

ایسے صاحب ممبر ہے اسکی مسجد کے

امیر شہر کے قدموں میں جا کہ بیٹھ گئے

ملی نہ شیخ کو میکدے میں گر کوئی جگہ

ہمیں وہ اپنی جگہ سے اٹھا کے بیٹھ گئے

فضیل ارشد صاحب نے کلام پیش کرتے ہوئے کہا

یہ کیسے فیصلے اوپر سے نیچے آرہے ہیں

جو انصاف کی قدروں کو کھاتے جارہے ہیں

تجھے برباد کردے گی مظلوموں کی آہیں

میاں ہم وقت رہتے یہ تجھ کو سمجھا رہے ہیں۔

آخر میں فضیل ارشد نے ترنم کے ساتھ اپنے کلام سے‌سامعین کو نوازا

اس مشاعرہ کا انعقاد نوجوان نسل میں اردو ادب کو فروغ دینے کے مقصد سے کیا گیا تھا نوجوان مقامی و مدعو شعراء کرام نے نئی فکر اور منفرد انداز میں کلام پیش کر سامعین کو محظوظ کیا۔ پہلی بار اس طرح کا مشاعرہ ہوا جو ادب و تہذیب کا گہوارہ محسوس ہوا اور باشعور سامعین کی موجودگی نے مشاعرہ کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

مستقیم ارشد صاحب نے نظامت کی ذمہ داری کو باخوبی انجام دیتے ہوئے مشاعرہ کو پائے تکمیل تک پہچایا۔جناب لیاقت علی خان نے شکریہ کلمات کے ساتھ مشاعرہ کا اختتام عمل میں آیا۔ادارہ ادب اسلامی ہند چکھلی کے ذمہ داران اور سامعین نے مشاعرہ کو کامیاب بنانے کیلئے انتھک محنت کی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button