مضامین و مقالات

ہنومان بھگت کیجریوال کیا سچ میں ہندوہیں?

آزاد ہندوستان میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ جو آدمی شراب کا وزیر ہو وہی تعلیم کا وزیر ہو اور اس پر یہ کہ وہ پوری شدت کے ساتھ شراب کی وکالت کرتا ہو ۔ ایسا بھی نہیں دیکھا گیا ہے کہ تعلیم اور نوجوانوں کے مستقبل کی بات کرنے والی پارٹی اقتدار میں آئےاور شراب پینے کی عمر کو گھٹا دے اور اس پر بھی اپنی واہ واہی کی عوام سے امید رکھے ۔

جی ہاں ! ہم بات کر رہے ہیں اہل دہلی کی، جہاں ہم اور آپ جیسے کروڑوں افراد بستے ہیں اور یہاں بسنے والےتمام ہندو بھائیوں کیلئے شراب ویسے ہی ممنوع ہے جیسے مسلمانوں کیلئے ۔ پینگل اپنشد میں نتو شرابی سے دوستی رکھنے والے سے بھی دوستی رکھنے سے منع کیا گیا ہے (بہ حوالہ اوتار محمد، سید اے حیدر) ۔

یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ جو آدمی (منیش سسودیا) وزیرتعلیم ہے وہی وزیر شراب بھی ۔ وہ کیجریوال جس کو دہلی والوں نے تین باراقتدار کی کرسی تک پہونچایا اور چو تھی بار وہ آدمی اپنے مکر و فریب سے وزارت عظمیٰ کی کرسی دیکھ رہا ہے،تو یہ صرف دہلی والوں کی ہی بدولت ممکن ہوا ہے اور اس میں بھی بڑا حصہ مسلمانوں کا ہے، کیونکہ دہلی کی تقریبا ۱۰ سے ۱۵ سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان از خود جیتنے کی پوزیشن میں نہیں اور اس کے علاوہ درجن بھر سے زائد سیٹوں پر جدھر وہ جائیگا اس پارٹی کی سرکار بنے گی اور یہی آج تک دہلی میں ہوتا آیا ہے ۔

دہلی والوں کی محبت کا انعام کیجریوال اور ان کی ٹولی نے شراب کے ٹھیکوں کی شکل میں دیا اور اس کو مہم بناکر تھوپ رہی ہے ۔ کیجریوال کے متعدد ایسے بیانات مل جائیں گے جس میں وہ سرکار کی تشکیل سے پہلے یہ بات واضح طور پر فرمار ہے ہیں کی ٹھیکا کھولنے سے پہلے لوگوں کی رائے لی جائے گی ۔

وہ اپنی کتاب سوراج میں واضح طور پر فرماتے ہیں کہ جب تک ۹۰ فیصد خواتین شراب کے ٹھیکے کے حق میں نہیں ہوں گی اس وقت تک شراب کا ٹھیکا نہیں کھولا جائیگا، تاہم عمل اس کے برعکس ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ شراب پینے کی عمر کم کرکے دنیا میں ایسا پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ دہلی والے شراب کے عادی ہیں ۔ دہلی والوں کی نئی نسل کو آنے والے کچھ سالوں میں کیجریوال اور ان کی کوٹری کھوکھلا کرنے کے درپہ ہے ۔

بلاشبہ کیجریوال مسلم مخالف ہیں ، لیکن ان کے ہنومان چالیسا پڑھ لینے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ ہندو دوست ہیں ،تاہم وہ ایک ایسے حکمراں ضرور ہیں جو عدل اور انصاف کی بالادستی کی بات کہہ کر اقتدار میں آئے، لیکن انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد جو گل کھلائے ہیں اس سے وہ پارٹیاں بھی شرمندہ ہیں جنہوں نے پوری زندگی نفرت کے بیج بوئے یا سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر بھگوا بریگیڈ کو پناہ دی ۔

کیجریوال نے ۲۰۱۴ میں ہی ایک میٹنگ میں اس بات سے توبہ کر لیا تھاکہ وہ کبھی بھی اسلام یا مسلمانوں کا نام اپنی زبان پر نہیں لائیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی ۔ کیجریوال جس بے شرمی سے یہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ آزاد بھارت کے سب سے بہترین وزیرتعلیم منیش سسودیا ہیں ،

اس سے یہ واضحنہے کہ وہ ان کو مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کا متبادل بنا کر پیش کررہے ہیں ۔ جس طرح عارف محمد خان اپنے آقاءوں کے اشارے پر عرفان حبیب جیسے معروف مورخ کو غنڈا بتاکر تاریخ کو تباہ کرنے پر آمادہ ہیں ،اسی طرح کیجریوال سسودیا کی آڑ میں مولانا آزاد رحمہ اللہ کی شخصیت کو کم کرکے دکھانے کی کوشش کررہے ہیں ،تاکہ آنے والے کچھ سالوں میں لوگ مولانا کو بھول جائیں ۔ اس سے زیادہ بد نصیبی کی بات کیا ہوگی کہ کیجریوال کا اقلیتی کمیشن کاچیئرمین ان کو’غریب نواز‘ بتا رہا ہے اورکوئی ردعمل نہیں ن ۔

خیر تعلیم کی آڑ میں شراب بیچنے والے انسان کو اُس انسان سے افضل بتایا جارہا ہے جو بھارت کا معمار ہے، جس کے معترف ان کے حریف بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس لیڈر کے آر ملکانی نے اپنے ایک مضمون میں لکھاتھا کہ جب آزاد ہند کےقلمدان تقسیم ہورہے تھے تو ہم سب کو ایک بات کا شدت سے انتظار تھا کہ کہیں مولانا آزاد کو وزرات داخلہ یا وزارت خارجہ جیسے اہم شعبہ نہ مل جائیں ، لیکن جب مولانا نے اپنے لئے وزیرتعلیم کے محکمہ کا انتخاب کیا تو ہم نے اس وقت کا فی جشن منایاتھا، لیکن وقت کے گذرنے کیساتھ اب ہ میں یہ احساس ہورہا ہے کہ اس وقت ہم غلط تھے ۔

کیجریوال نے ۲۰۱۴ کے انتخابات میں ممبئی میں مسلم سرمایہ داروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں اس خدشہ کا اظہار کیاتھاکہ کسی بھی طرح سے دہلی میں ایم آئی ایم کی انٹری نہ ہو ۔ وطن سماچار کے مطابق اسد الدین اویسی کو منانے اور ایم آئی ایم کو روکنےکی ذمہ داری بزرگ رہنما الیاس اعظمی کو دی گئی ۔ جب عام آدمی پارٹی کے مستقبل کافیصلہ ہو رہا تھا اس وقت یوگیندر یادو اور ان کے رفقا ایک وقت تک کیجریوال پر حاوی نظر آرہے تھے، لیکن الیاس اعظمی یہاں بھی سنکٹ موچک کے طور پر ابھرے ۔

اس کے بعد ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور انہیں پارٹی چھوڑنے کیلئے مجبور ہونا پڑا ۔ اس لئے اگر کوئی بھی اروند کیجریوال سے وفا کی امید کرتا ہے تو وہ دیوانے کے خواب سے کم نہیں ہے ۔ جو انسان اپنے چالیس سال پرانے دوست کمار وشواس، سیاست کے نباض یوگیندر یادو اور سیدھے اور شریف انسان پروفیسر آنند کمار کا نہیں ہوا، جو شانتی بھوشن اور پرشانت بھوشن کو اپنے لئے چیلنج کے طور پردیکھنے لگا وہ ہمارا اور آپ کا کیا ہوگا;238; اس کا اندازہ آپ خود بہ خود لگا سکتے ہیں ۔

بہرحال بات شراب پالیسی کی، کیجریوال کی شراب پالیسی نے ملک اور بیرون ملک میں جس طرح سے بھارت کی توہین کرائی ہےوہ کسی سے پوشید ہ نہیں ہے ۔ تعلیم کی آڑ میں جس طرح شراب پروسی جارہی ہے وہ ایک انتہائی شرمناک عمل ہے ۔ گاندھی جی سے لے کر تمام مصلحین نے شراب کےجو نقصانات اور اس کی جو تباہ کاریاں بیان کی ہیں ، وہ ہم میں سے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

آج کا میڈیکل سائنس بھی شراب سے بچنے کی سختی سے تاکید کررہا ہے ۔ اگرکیجریوال اسلام اور مسلمانوں کی نفرت میں مسلم علاقوں میں بھی شراب کی دوکان کھولنے کی ضد پر آمادہ ہیں تو کم سے کم انہیں یہ دکانیں ہندو علاقے میں فوری طور پر بند کردینی چاہئے ۔ وہ خود کو سب سے بڑا ہندو کہتے ہیں ۔ وہ خود کو ہنومان جی کا بھگت کہتے ہیں اور وہ ہنومان چالیسہ کا پاٹھ پڑھنے کی بات کرتے ہیں ،لیکن یہ سب ان کا محض سیاسی ڈرامہ ہے ۔ یا تو وہ سناتن دھرم جانتے نہیں یا اپنی سیاست کیلئے سناتن دھرم کو قربان کررہے ہیں ۔

شراب پینے سے وید اور پینگل اپنشد دونوں منع کرتے ہیں ،تو پھر وہ شراب کو بیچنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں ;238; لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ عام طور پر ہمارے ہندو بھائی شراب پینے یا نہ پینے کو دھرم سے جوڑ کر نہیں ندیکھتے ۔ پینگل اپنشد کا ادھیائے چار اچھے کام کرکے نجات پانے والے کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’نجات کیلئے شراب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے;;پینگل جیسے اپنشد شراب پینے کو چار بڑے گناہ میں بتارہے ہیں اور پانچواں گناہ اگر بتارہیں ہیں تو وہ یہ کہ جو درج ذیل چار گناہ کرےاس سے تعلق رکھنا پانچواں سب سے بڑا گناہ ہے، جس میں شراب کے علاوہ برہمن کا قتل، سونے کی چوری، گرو کی اہلیہ کے ساتھ بستر شیئر کرنا شامل ہے ۔

بات اپنشد کی مانیں تو وہ شراب پینےوالوں سے رشتہ بھی رکھنے سے صاف منع کررہا ہے، تو جو اس کو پروس رہا ہے اس کے بارے میں آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ ہندو دھرم کا کتنا بڑا گنہگار ہے ۔ جہاں تک رہی بات اسلام اور مسلمانوں کی تو اسلام میں شراب کا حکم واضحنہے، لیکن شرابی سے تعلق کا حکم واضحننہیں ہے، ہاں اچھے لوگوں سے صحبت رکھنے کی تاکید ضرور ہے ۔

اب اگر ہم سچے ہندو یا سچے مسلمان ہیں ،تو ہ میں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا دھرم ہم سے کیا چاہتا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کیجریوال کے ساتھ گناہ میں شامل ہو کر اپنے مالک کی نافرمانی کا راستہ کھوج رہے ہیں ۔ ہ میں نوید اوراپنشد کے تناظر میں کیجریوال کی شراب پالیسی کو دیکھنے اور اپنے نجا ت(موکش) کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم توبہ کریں اور ایسے پاکھنڈیوں سے دوری اپنا لیں ن،یہی ہماری اور آپ کی کامیابی کا راستہ ہے ۔
کلیم الحفیظ، نئی دہلی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button