
موجودہ دورِ فتن میں تقلید کی اہمیت و ضرورت
محمد احسان اشاعتی
7008684394
تقلید فقہاء کی اصطلاح میں، ایک شخص کا دوسرے کے قول یا فعل کو دلیل اور حجت کی طلب و تحقیق کے بغیر یہ حسن ظن رکھتے ہوئے قبول کر لینا کہ وہ حق پر ہے، علامہ ابن ہمام ؒ نے تقلید کی بڑی جامعیت کے ساتھ تعریف فرمائی کہ تقلید اس شخص کی بات کو دلیل و حجت طلب کیے بغیر مان لینے کا نام ہے، جس کی رائے بذات خود حجت شرعی نہیں، التقلید العمل بقول من لیس قولہ احد الحجج بلا حجۃ فیھا؛ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون (النحل 43) کہ اگر تمہیں علم نہیں تو جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کرو؛ دوسری جگہ ارشاد ہے یاایھا الذین آمنو ا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم (سورہ نساء59) اللہ اور رسول کے بعد اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا، اولی الامر کون ہیں اس تعلق سے ابن عباس ؓکا قول مستدرک حاکم میں منقول ہے اولی الامر اھل الفقہ والدین (مستدرک 1/123) اور اہل فقہ کی یہ تقلید کوئی نئی روش نہیں بلکہ بے راہ روی سے حفاظت اور صراط مستقیم پر استقامت کا وہ بہترین واسطہ ہے جو دور صحابہ سے تا ہنوز مروج ہے، حضرات صحابہؓ کے زمانے میں بھی، ان صحابہ کی مسائل دینیہ میں تقلید کی جاتی تھی جو دینی علوم میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور جن کو قرآنی علوم سے واقفیت کی بنیاد پر قراء کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا نیز وہ صحابہ جنہوں نے حضور ﷺ کی صحبت با برکت کی وجہ سے فقہی بصیرت کا وافر حصہ پایا تھا، مثلا حضرت عمرؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ وغیرہ ان کی تقلید کی جاتی تھی، انہیں سے احکامات کی توضیح و تشریح کیلئے رجوع کیا جاتا تھا، تاہم مثل دور حاضر تقلید شخصی کا رواج نہ تھا اور نہ اس زمانے میں اس کی ضرورت تھی کیونکہ وہ خیر القرون کا زمانہ تھا، ہوا پرستی و نفسانیت عام نہ تھی بلکہ دوسری صدی تک بھی تقلید مطلق کا رواج رہا، بعدہ جب دینی تنزلی شروع ہوئی اور صلاح وتقوی و خلوص و للھیت میں کمی آگئی تو تقلید شخصی کو لازم قرار دے دیا گیا؛ چونکہ تقلید کا مقصودو مطلوب ہی ہے انسان کو نفس کی غلامی سے نکال کر رب ذوالجلال کی اطاعت و انقیاد کا عادی بنانا، مگر بد قسمتی سے دور موجود میں کچھ کج رو اہل مشرب کی طرف سے تقلید کی غلط تعبیر و تشریح پیش کرکے لوگوں کو مغالطے میں ڈالا جارہا ہے، حقیقت پر پر دہ ڈال کر زیغ و ضلال کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں، جبکہ اس کی حقیقت سے واقف شخص اس کی اہمیت وضرورت سے ہر گز صرف نظر نہیں کر سکتا۔
تقلید کے منکرین کا سب سے بڑا مدعی یہ ہے کہ شریعت کے مآخذ اصلیہ قرآن و حدیث کی موجودگی میں کسی اور کی اتباع اور تقلید کیونکر جائز ہو سکتی ہے، تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ائمہ مجتہدین کی اتباع و تقلید ہم بحیثیت شارع دین کے نہیں بلکہ شارح دین کے کرتے ہیں؛ اس میں شبہ نہیں کہ پوری شریعت کے اصلی مآخذ قرآن و حدیث ہیں سارے شرعی احکام و مسائل قرآن و حدیث سے ہی مستخرج ہیں صراحۃ ً یا دلالۃ ً، اس کے باوجود تقلید کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے، اس لئے کہ بعض احکامات تو قرآن و حدیث سے صراحۃً ثابت ہیں ان احکامات کو مسائل منصوصہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بعض احکامات وہ ہوتے ہیں جو مبہم و مجمل ہوتے ہیں اور یہ اپنے ابہام کی توضیح اور اجمال کی تفصیل کے متقاضی ہوتے ہیں، اور کچھ آیات وہ روایات معانی متعددہ کی حامل ہوتی ہیں،جن میں تعیین معنی کی حاجت ہوتی ہے نیز بعض آیات دوسری آیات یا روایات سے متعارض ہوتی ہیں، تو ان آیات و روایا ت کے مابین جمع و تطبیق اور دفع تعارض کی ضرورت پڑتی ہے؛ اب ظاہر ہے کہ ان امور مہمہ میں اجتہاد و استنباط کے بغیر چارہ کارنہیں، اوراجتہادواستنباط کا کام ہر کس و ناکس کو سونپا نہیں جا سکتا؛ لازماً ایک ایسی شخصیت کے اجتہاد و استخراج مسائل پر اعتماد کیا جائے گا جو زمانہ نبوت سے قریب تر، ماحول نبوت سے نزدیک تر اور مزاج شریعت سے شناسا ہو۔
خصوصاً فی زماننا ھذا تقلید کی اہمیت و ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ دور دین بیزاری کا دور ہے، لوگ دین و شریعت کے چوغے کو نکال پھیکناچاہتے ہیں، لامحدود اور بے لگام آزادی کے متلاشی اوربے حساب ہوا و ہوس کے طلبگار ہیں، تدین کے بجائے تشھی کا غلبہ ہے امانت و دیانت داری کے بجائے خیانت اور دجل و فریب کا دور دوراں ہے، ایسے میں تقلید سے پہلو تہی اختیار کرنا اور ترک تقلید لوگوں کو شتر بے مہار چھوڑنے کے مانند اور گمراہی و بے راہ روی کے قعر مذلت میں ڈھکیلنے کے مترادف ہے؛ چونکہ ترک تقلیدکی صورت میں، جہاں ایک طرف عامی شخص کو حرج عظیم میں ڈالنا لازم آئے گا اسلئے کہ قرآن و سنت سے اجتہاد و استخراج ہر ایک کے بس کا نہیں، بڑا مشکل امر ہے اور نازک بھی، یہی وجہ ہے کہ کبار علماء و محدثین اور اجل مفسرین عظام نے بھی مقلد بننے اور کسی کے دامن تقلید تھامنے میں ہی عافیت سمجھا؛ وہیں دوسری طرف ترک تقلید اور عامی پر اجتہاد و استخراج کا دروازہ کھولنے پر ضلالت عامہ اور دین و شریعت کے ضالین و مضلین کے لئے بازیچہ ء اطفال بننے کا عین اندیشہ ہے۔
تقلید کے وجوب و لزوم کے لئے قرآنی آیات و روایات اور اجماع تو ہیں ہی،علاوہ ازیں بقول فقیہ دہر مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب، تقلیدکے و اجب ہونے کی ایک اہم ترین دلیل عام لوگوں کا تقلید پر مجبور ہونا، تقلید سے ممانعت میں تکلیف مالایطاق کا لازم آنا، اورہوا پرستی کے سد باب کے لئے اس کاضروری ہونا ہے، (قاموس الفقہ) اورحالات کی زبوں حالی اور زمانہ انحطاط میں ترک تقلید اور ہر کس و ناکس کے اختیار اجتہاد پر ضرب کا ری لگاتے ہوئے، وقت کے نہایت ہی دور اندیش اور صائب الرائے شخصیت علامہ اقبال نے کہا تھا
اجتہاد اندر زمان انحطاط قوم را برہم ہمی پیچد بساط
اجتہاد عالمان کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر