جبر کی للکار کو صبر کی یلغار نے پیچھاڑ دیا
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ س م ظفر
نئی نسل کے بنگالی نوجوان اپنے بزرگوں ، استادوں اور ماں باپ سے اکثر سوال کرتے تھے کہ تم لوگوں نے مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لئے شیطان ہندوستان کا ساتھ کیوں دیا ؟ یہ نوجوان کئی دہائیوں سے اس سوال کو اپنے دل و دماغ پر بھاری بوجھ سمجھتے تھے کالج اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کہتے ہیں کہ یہ باتیں ہمیں ہمارے دل ودماغ پر ہتھوڑے برسا رہا تھا، یہ ہمارے ضمیر پر بوجھ تھا جو بالآخر بنگالی نوجوانوں نے انقلاب کی صورت میں اتاردیا ہے” بنگلہ دیش کے ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ سے کسی صحافی نے پوچھا کہ طلباء نے بنگلہ دیش کے بانی مجیب الرحمن کے مجسّمے کیوں توڑ ڈالے؟ تو انہوں نے کہا "نوجوان سمجھتے تھے کہ ہمیں ہندوستان کی ایک ریاست بنادیا گیا ہے، اور بنگلہ دیش کو یہ غلامانہ حیثیّت دینے کے ذمّے دار شیخ مجیب اور اس کی بیٹی حسینہ واجد ہے۔ نوجوانوں کے تیشوں نے مجیب اور حسینہ کے مجسّمے نہیں توڑے، ہندوستان کی حاکمیّت کے بتوں کو پاش پاش کردیا ہے”
5 اگست 2024 کو بنگالی طلباء نے ملک کو بھارت کی غلامی سے آزاد کرا کر تاریخ رقم کردی ہے ۔ کیونکہ مجیب الرحمٰن نے ہمیں بھارت کی جھولی میں ڈال دیا تھا اور اس کی بیٹی نے تو عملی طور پر بنگلہ دیش کو ہندوستان کی کالونی بنادیا تھا۔ چنانچہ غلامی کے خلاف کئی دہائیوں سے پکنے والا یہ عوامی لاوا سیلاب بن کر باہر نکلا تو ہر چیز کو بہا کر لے گیا۔ طاقتور ترین وزیراعظم ریت کی دیوار ثابت ہوئی کیونکہ "جبر کی یلغار کو صبر کی للکار نے پچھاڑ دیا ہے” ۔
20 جولائی کو جب شیخ حسینہ نے ظلم اور جبر کی تمام قوتیں میدان میں جھونک دیں تو بنگلہ دیش کے طلباء وطالبات نے جرأت، استقامت اور قربانی کی حیرت انگیز تاریخ رقم کردی۔ نوجوان طلباء اور طالبات گولیاں کھا کھا کر گرتے رہے مگر کوئی پیچھے نہ ہٹا۔۔کسی کے پائے استقامت میں معمولی سی بھی لغزش پیدا نہ ہوئی، ایک دن میں ڈیڑھ ہزار نوجوان شہید ہوئے مگر ان کے خون کی روشنی میں قوم نے اپنی منزل پہچان لی۔ اُسی وقت ان کے بہادر اور بے خوف کوآرڈینیٹر (ریٹائرڈ ٹیچر بدر الاسلام کے بیٹے) ناہید اسلام کی للکار ملک کے طول وعرض میں سنی گئی "گھروں، ہوسٹلوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے باہر نکلو اور اپنے دیش سے غلامی کی ہر علامت اور جبر کا ہر نشان مٹادو۔ شہیدوں کے خون سے عہد کرو کہ ہم ملک کو مکمّل آزادی دلائے بغیر واپس نہیں جائیں گے” آن کی آن میں پورے بنگلہ دیش کی سڑکیں سرفروشوں سے بھر گئیں، لاکھوں طلباء آزادی کا عزم لیکر نکلے تو انکے سامنے نہ پولیس ٹھہر سکی اور نہ فوج رکاوٹ بن سکی۔
بنگالی نوجوانوں نے عوامی احتجاج کو انقلاب کی کل دے دیا تھا کیونکہ نوے فیصد طلبا اپنے اپنے ضمیر کے قیدی بن کر زندگی گزار رہے تھے لہذا اس ضمیر کے قرض کو 1971ء میں مسلم پاکستان کے مقابلے میں ہندو بھارت کا ساتھ دینے کا قرض۔۔۔ حسینہ واجد کے وحشیانہ جبر پر خاموش رہنے کا قرض۔۔۔ پروفیسر غلام اعظم جیسی بلند کردار شخصیّت کی موت پر غیر جانبدار رہنے کا قرض۔۔۔ اس خونی عورت نے عبد القادر ملّا، قمر الزماں، علی احسن مجاہد، مطیع الرحمان نظامی، میر قاسم علی جیسی بزرگ شخصیّتو ں کو پھانسی دے دی اور ہم ان کی جانیں نہ بچا سکے، اس بے حسی کا قرض۔ 5 اگست کو طلباء نے وہ سارے قرض اتار دئیے ہیں۔ پاکستان سے قلبی اور ذہنی تعلق نے تمام جبر کی دیواروں کو اپنے عزم و حوصلہ سے مسمار کر دیا اور پڑوسی ملک بھارت کو کرارا جواب دے دیا کہ موجودہ بنگلہ دیش 1971 والا مشرقی پاکستان جیسی حالت میں نہیں ہے کہ جہاں بھارت نواز مکتی باہنی کا راج تھا آج کا بنگلہ دیش سرفروش طلبا و طالبات کا جنھیں تاریخ اسلام اور تاریخی حقائق سے مکمل آگاہی ہے ۔ لہذا بنگلہ دیش اب بھارت کی کالونی بن کر نہیں رہ سکتا ہے ہم تحریک پاکستان کے اکابرین کے وارث ہیں ہم نے بنگلہ دیش نہیں مشرقی پاکستان کی بنیاد رکھی تھی جسے بھارت نے شیخ مجیب الرحمٰن کے ذریعے داغدار کیا آج وہ داغ اپنے لہو سے ہم بنگالی نوجوانوں بزرگوں طلبا و طالبات نے دھو دیا ہے