تازہ ترین خبریں

یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا : خان نوید الحق

پونہ 11 مئی : برصغیر کے ادبی حلقوں میں سلام بن رزاق کی شخصیت بطور افسانہ نگار بلا شبہ معتبر و مستند رہی ہے ـ ان کا فیض تا دم آخر ادب کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہء جات میں بھی جاری رہا اور بعد از مرگ بھی جاری رہے گا ـ تعلیم و تدریس سے ان کی وابستگی فکری سطح پر رہی اور یہاں بھی ان کے نقش پا سے سیکڑوں ہزاروں نے رہنمائی حاصل کی ـ بالخصوص اپنے بعد کے آنے والوں کے لیے سلام بن رزاق ایک گھنا سایہ دار درخت کی مانند رہے کہ جس کی چھاؤں جویانِ علم و ادب کا مسکن رہا کرتی تھی ـ مگر افسوس کہ اب ‘یہ آخری درخت….’ اس طرح کے خیالات کا اظہار خان نوید الحق نے ادارہ بال بھارتی (پونہ ) میں منعقد ایک تعزیتی نشست میں کیا ـ واضح رہے اردو کے مایہ ناز افسانہ نگار سلام بن رزاق طویل علالت کے بعد 7 مئی کی صبح ممبئی میں انتقال کر گئے ـ سلام بن رزاق کی رحلت بال بھارتی( پونہ) کے لیے بھی کسی صدمے سے کم نہیں ہے ـ مرحوم برسوں اس ادارے سے عملی طور پر وابستہ رہے ـ اس موقع پر ڈاکٹر اشفاق عمر نے مختلف واقعات کی روشنی میں سلام بن رزاق کے فن اور حقیقی زندگی کو آمیز کرتے ہوئے ان کے مشاہدے کی قوت کو آشکار کیا ـ اسی طرح ملک نظامی کے مطابق سلام بن رزاق کی شخصیت بہ حیثیت مجموعی یکسر منفرد تھی ـ سلام بن رزاق کے افسانوں میں جس درجے انفرادیت پائی جاتی ہے ، شخصی سطح پر ان کا مقام بھی اسی درجے منفرد تھا ـ یاسین اعظمی نے بال بھارتی کے حوالے سے مختلف واقعات کا ذکر کرتے ہوئے سلام بن رزاق کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اپنا اظہار خیال پیش کیا ـ موصوف کے نزدیک سلام بن رزاق کی رحلت ادارہ بال بھارتی کا ذاتی نقصان ہے جس کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں ـ اس نشست میں وسیم فرحت علیگ نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی ـ آپ نے مرحوم سلام بن رزاق کے ساتھ اپنے دیرینہ مراسم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے قلم کی پختہ کاری اعتراف کیا ـ اسی طرح وسیم عقیل شاہ نے سلام بن رزاق کی ذاتی زندگی پر مختصراً روشنی ڈالی ـ اس موقع پر نازیہ ذاکر شیخ، عبدالقیوم کفایت ،عبدالاعلی ،امتیاز انصاری ،محمد محسن آکلوی، ایڈووکیٹ متین طالب اور مومن وسیم احمد خاص طور پر شریک تھے ـ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button