
کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟
-
۔ نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707
چمنستان بھارت میں دین اسلام مغل حکمران یا افغانی مسلم حکمرانوں کے زمانے میں نہیں پھیلا بلکہ ان مسلم حکمرانوں کے بھارت آنے سے کئی سو سال قبل عرب کھاڑی سے بھارت تجارت کے لئے آنے والے عرب تجار کی ایمان دارنہ تجارت، حسن اخلاق اور تجارت میں انکے جذبہ وعدہ وفائی(کمٹمنٹ) سے پھیلا ہے۔ گمان ہے کہ عرب کھاڑی میں ظہور اسلام سے قبل ہی سے عرب تجار کے، پانی کی راستے بادبانی کشتیوں سے، بھارت سے تجارتی تعلقات تھے اور یہ عرب تجار عربین سمندر سے ہوتے ہوئے، بھارت کے مختلف ساحلی علاقوں، مہاراشٹرا کے کونکن، کرناٹک کے بھٹکل و اطراف بھٹکل،ٹمل ناڈ کے کلیکیرے اورکیرالہ و گجرات کے مختلف ساحلی علاقوں میں اپنی بادبانی کشتیوں سے لنگر انداز ہوتے تھے اور عرب کھاڑی سے اپنے ساتھ لائے عربی النسل گھوڑے، کھجور، انجیر زیتون گیہوں وغیرہ لاکر بیچا کرتے تھے اور واپسی پر، اپنے ساتھ ہندستانی،کالی مرچ، گرم مصالحہ جات، چاول وغیرہ لے جاتے تھے۔جب عرب کھاڑی میں حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ سے اسلام کا نزول ہوا تو اس وقت کے مکی دور میں اور مدنی دور کے ابتداء میں مسلمان قبلہ اول بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھا کرتے تھے۔ یہ تو 624 عیسوی میں مدینہ کی مسجد میں جب حسب معمول قبلہ اول بیت المقدس کی طرف رخ کئے نماز پڑھنے میں مشغول تھے، دوران نماز اللہ کے رسول ﷺ پر وہی کے ذریعہ حکم الہی آنے سے، آپ ﷺ نے باقی کی نماز مکہ المکرمہ کعبہ کی طرف رخ پھیر کر، نماز پوری کی تھی اسی لئے مدینہ کی اس مسجد ہی کا نام مسجد قبلتین پڑ گیا تھا
انہی ایام اسلام کے ابتدائی دنوں میں، اسلام قبول کئے مسلمان ہونے والے عرب تجار اپنے ساتھ دین اسلام کی دعوت بھارت کے ان علاقوں میں لاچکے تھے اور ان مسلم عرب تجار کی ایمان داری امانت داری،وعدہ وفائی جیسے حسن اخلاق سے بھارت کے مقامی عوام کافی حد تک اسلام قبول کرچکے تھے۔
بھارت کی پرانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کیرالہ میتھالہ، کوڈونگلور ترشور کی 629 عیسوی، وہاں کے ھندو بادشاہ چیرامن کے مسلمان ہونے کے بعد تعمیر کی گئی "چیرامن جمعہ مسجد” بھارت کی سب سے پرانی مسجد بتائی جاتی ہے۔جبکہ ٹمل ناڈ ساحل سمندر کیلکرے علاقے میں 628 سے 630 عیسوی درمیان تعمیر پلیئہ جمعہ مسجد کیرالہ کی چیرامن جمعہ مسجد سے بھی پرانی بھارت کی اولین مسجد ہے۔ لیکن ابھی حال ہی کی تحقیق مطابق گجرات بھاؤنگر کے ساحل سمندر گھوگھا علاقے میں نیشنل مونیومنٹ کے تحت ایک بند مسجد کا انکشاف ہوا ہے جسکا نام برواڈا مسجد (باہر سے آئے) جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ مسجد 610 سے 623 عیسوی کے درمیان تعمیر چمنستان بھارت کی یہ اولین مسجد ہے ۔ اس مسجد کی خصوصیت اس کا قبلہ مسجد حرام مکہ کے بجائے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی طرف ہونا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ نزول اسلام کے ابتدائی مکی زندگی ہی میں، آج سے 1410 سال قبل ہی عرب تجار کے اخلاق حسنہ سے گجرات میں اسلام پھیل چکا تھا، چونکہ کافی تعداد میں گجراتی حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے اسلئے ان کے لئے نماز پڑھنے جو مسجد اس وقت تعمیر کی گئی تھی اسکا رخ قبلہ، اسلام کے شروعاتی دور کا قبلہ اول، بیت المقدس فلسطین ہی کی طرف تھا۔ اس تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ ثابت ہوتی ہے کہ اسلام کے ابتدائی مکی زندگی ہی میں، گجرات کےراستےچمنستان بھارت میں، دین اسلام دستک دے چکا تھا۔بھارت کی پہلی تعمیر مسجد 1410 سال قبل گجرات میں ہوئی تھی ۔
کیرالہ ترشور کے اس وقت کے بادشاہ چیرامن کے اپنے محل کی چھت پر شب کی تاریکی میں توضیع اوقات ٹہلتے وقت مکہ المکرمہ،اللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ کے معجزہ شق القمر (چاند کے دولخت ہونے کا منظر) کا مشاہدہ بنفس نفیس کرنے کے بعد اور اس واقعہ شق القمر، بعد کے دنوں میں عرب سے آئے تجار کی زبانی شق القمر کےواقعہ کی تفصیل جاننے کے بعد، کیرالہ کا ھندو بادشاہ چیرامن قلبی اعتبار سے اسلام قبول کر چکا تھا لیکن بعد کے دنوں میں اس نے مکہ کا سفر کرتے ہوئے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرتے ہوئے، بھارت میں اسلام کی تبلیغ کے لئے، آج سے 1392 سال قبل مالک بن دینار رض کو بھارت لاتے ہوئے، چمنستان بھارت میں، باقاعدہ دین اسلام کی تبلیغ و توضیع کا کام شروع کر دیا تھا۔تاریخ کے اوراق کھنگالنے سے پتہ چلتا ہے کہ کیرالہ کا ھندو بادشاہ چیرامن اپنے محل کہ چھت سے شق القمر کا مشاہدہ کرنے کے بعد اور بدد میں آنے والے عرب تجار سے تصدیق ہونے کے بعد اپنی مسند پر اپنےے بھتیجے کو قائم مقام بادشاہ بناتے ہوئے، اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ قصد سفر مکہ کیا تھا۔ لیکن پیدل سفر سے مکہ پہنچتے پہنچتے ان ایام رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوچکے تھے۔ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے ملاقیں کئے خود اپنے کثیر افواج کے ساتھ مسلمان ہونے کے بعد واپسی پیدل سفر دوران آج کے اومان مسقط کے علاقہ میں کیرالہ کا ھندو بادشاہ چیرامن جو مسلمان چکا تھا انتقال کرجاتا ہے اسکا نہ صرف مقبرہ آج بھی اومان کے دوفار ریجن میں ہے بلکہ ان ایام افواج بادشاہ چیرامن کے اہنے ساتھ لے گئے ناریل کے درخت ان علاقوں اگائے جانے سے کھاڑی کے ریگستان کا وہ علاقہ ھند ملبار جیسا سرشبز و شاداب جنگلاتی ھند کیرالہ جیسا علاقہ لگتا ہے۔چیرامن بادشاہ نے اپنے انتقال سے پہلے اپنے بھتیجے بادشاہ ترشور کیرالہ کو لکھے پیغام میں اپنے مسلمان ہونے اور کیرالہ میں آباد مسکمانوں کے لئے مسھد تعمیر کرنے ہر قسم کی سہولت مہیہ کروانے کی ہدایت کی کوئی تھی۔ اسی لئے بعد دنوں سالوں میں مرحوم بادشاہ چیرامن کی ہدایت پر اسکج بھتیجے نے 629 عیسوی میں ترشور کیرالہ چیرامن جمعہ مسجد تعمیر کرنے اس وقت کھ مسلمانوں کو مدد و نصرت کی تھی۔ ظاہر ہے اس کافی پہلے بھٹکل کرناٹک کلیکیرے ٹامل ناڈ کونکن مہاراشٹرا اور گھوگھات احمد آباد گجرات میں مساجد قائم ہوچکی تھیں اور زمانہ کی جدت پسندی پرسنی تعمیر مساجد شہید کئے جانے سے تاریخ کا حصہ نہ بم پائی تھیں لیکن کیرالہ ترشور کی چیرامن جمعہ مسجد اور گجرات کھمبات کی قبلہ اولی بیت المقدس کی طرف رخ کئے تعمیر برواڈا مسجد کی باقیات ابھی تک باقی ہیں اسلئے کہا جاسکتا ہے کہ آج سے 1400 سال قبل دین اسلام بھارت کے مختلف حصوں صوبوں پہنچ چکا تھا،بلکہ ان علاقوں میں مسلم آبادی اتنی ہوچکی تھی کہ وہاں وہاں مساجد 1400 سال قبل تعمیر ہوچکی تھیں۔
کرناٹک ساحل سمندر پر واقع اہل عرب یا اہل نائط ساکنین بھارت کا مشہور شہر بھٹکل جہاں کے بارے یہ بات مشہور ہے کہ اہل نائط ساکن بھٹکل اپنے معاشرتی تجارتی تنازعات کے باہمی حل کے لئے، اپنے درمیان محکمہ شرعیہ قائم کئے ہوئے تھے اور عمومی طور نہ صرف اس وقت صد فیصد انکے آپسی تنازعات محکمہ شرعیہ ہی میں حل کئے جاتے تھے بلکہ آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی،!اہل نائطہ اہل عرب ساکن بھٹکل اپنے 99فیصد تنازعات اپنے محکمہ شرعیہ میں حل کرواتے ہیں۔ اور الحمدللہ بھٹکل محکمہ شرعیہ اپنے پاس سابقہ ایک ہزار سالہ ریکارڈ محفوظ رکھے ہوئے ہے اور اس کی تصدیق مسلم پرسنل بورڈ کے اراکین اپنے بھٹکل آمد دوران پرانے ریکارڈدیکھ تصدیق کرچکے ہیں۔ پہلی صدی ھجری میں اہل عرب جب بھٹکل تشریف لائے تھے بحرہ عرب سمندر سے سٹے شراوتی ندی کنارے اپنی بادبانی کشتیوں کو پڑاؤ ڈال ندی کنارے جہاں نماز پڑھی تھی کافی لمبا اس زمانے کا کالا پھتر ناوزے فاتر یا نماز پڑھا پھتر کے نام سے مشہور ابھی بھی وہیں پڑا ہوا ہے۔ ان ایام تعمیر غوثیہ و مشما مساجد وقت کے ساتھ تعمیر نو ہوتے ہوتے اپنی اصلی اثاث کھو چکی ہیں
مشہور مورخ ابو جعفر طبری متوفی 310 ہجری لکھتے ہیں، کہ "قبیلہ قریش سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ نائطہ کہلاتے ہیں. یہ لوگ حجاج بن یوسف کے خوف سے مدینہ منورہ سے نکل کر بھارت کے مختلف جگہوں پر بس گئیے تھے”۔ علامہ نووی رحمہ اللہ علیہ متوفی 676 سن ہجری لکھتے ہیں. "اگر کوئی سوال کرے کہ ہندستانی میں جو قوم نائطہ کہلاتی ہے،وہ کون ہیں ؟ تو وہ لوگ بنی ہاشم بن عبد مناف بن قصید سے تعلق رکھتے ہیں.یعنی حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر طیار اور حضرت حارث بن مطلب کی اولاد میں سے ہیں. ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ مستجاب الدعواۃ تھے. وہ لوگ 6 ہجری میں حجاج بن یوسف کے خوف سے مدینہ منورہ سے ہجرت کرکے جنوب ہند کی ساحلی پٹی، کرناٹک کے بھٹکل و اطراف بھٹکل، مہاراشرا کے رتناگری کونکن اور ٹملناڈ کے کلکیرے علاقوں میں آباد ہوگئیے تھے۔
اس کا مطلب صاف ہے بھارت میں باہر سے حملہ آور مسلم حکمرانوں کی یلغار و یہاں انکی لمبے عرصے تک حکومت سازی سے،کئی سو سال قبل سے ہی، بلکہ عرب کھاڑی میں جب اسلام کا سورج طلوع ہواتھا انہی ایام اپنی تجارت کے سلسلے میں بھارت آتے جاتے مختلف عرب تجار کی تجارتی ایمانت داری و حسن اخلاق سے اور ان ایام بھارت کے سوریہ ونشی برہمن ھندو راجاؤں کے بھید بھاؤ سےتنگ آئے پچھڑے جاتی بھارتی ھندو، اسلامی مساوات سے متاثر ہوتے ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں اسلام دھرم قبول کرچکے تھے۔ اور اسلام دھرم بھارت کے کونے کونے میں پھیل چکا تھا۔ اس کا ادراک واحساس تمام تر ھندوؤں کو ہے لیکن پھر بھی شدت پسند سنگھی برہمن،عام ہندوؤں پر اپنی گرفت مضبوطی سے بنائے انہیں اپناغلام بنائے رکھنے ہی کی خاطر، مغل حکمرانوں نے، اپنی حکومت دوران یہاں کے ہندوؤں پر بے جا ظلم ڈھاتے ہوئے ھندوؤں کا دھرم پریورتن کرنے کی، بے بنیاد خبریں دانستا” پھیلائی ہیں اور ان بے بنیاد خبروں ہی کو بنیاد بناتے ہوئے، وقتی منافرتی کارڈ کھیلتے ہوئے،اپنی گندی سیاست میں، ایک حد کامیاب ہورہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک ھندو سوامی نے اپنی تقریر میں اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام نہیں پھیلایا بلکہ 1400 سال قبل چھٹی عیسوی ہی میں بھارت میں اسلام دھرم پھیل چکا تھا۔
آخر میں ہم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ بھارت میں اب بھی موجود 15 % سے 20% تقریبا 25 سے 30 کروڑ بھارتیہ عوام مسلم دھرم کے ماننے والے، نہایت نرم مزاج امن پسند لوگ ہیں اور عالم کے کسی بھی علاقے کے مسلمان چاہے ان پر کتنا بھی ظلم ڈھایا جائے وہ اپنا دھرم کسی صورت چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ اور آج عالم کے 200 سے زیادہ ملکوں کی اقوام متحدہ چارٹرڈ کے تحت، ہیومن رائیٹ یا پاسداری حقوق انسانی کے رہتے ایک فیملی کی طرح رہتے عالمی تناظر میں، 25 سے 30 کروڑبھارتیہ مسلمانوں کو، یکلخت ختم کرنا نہ ان سنگھیوں کے بس کی بات ہے اور نہ ہی انکی اوقات! اس بات کا احساس ان سنگھی حکمران مودی یوگی اور موہن بھاگوت کو بھی ہے۔ لیکن پھر بھی دانستا” مسلم مخالف اپنے نظریات کو، ہمہ وقت درشاتے ہوئے، یہ سنگھی حکمران، اپنی سیاست کی بساط پر قبضہ جمائے رکھنا چاہتے ہیں۔ تمثیلا عرض ہے کہ عالم کی سب سے بڑی حربی طاقت صاحب امریکہ اور اس کے اسلام دشمن یورپئین ممالک کے گٹھ جوڑ حربی تعاون کے تناظر میں، عالم کی پانچویں حربی طاقت اسرائیل، اپنے حربی ٹینکوں اور بمبار طیاروں کی آتشی بارش کے باوجود، ہاتھوں میں پھتر اور غلیل لئے، تقریبا نہتے محصور جینے مجبور کئے گئے، فلسطینیوں کو، آج 50 سال کے لمبے عرصے میں زیر نہیں کرپایا ہے۔بلکہ ان سابقہ پچاس سالوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ میزائل و ڈرون و بموں سے لیس یہود و نصاری کے مقابلے، نہتے فلسطینی طاقتور تر بنتے جارہے ہیں۔ مانا کہ اسرائیلی ٹینکوں بمبار طیاروں کی ہمہ وقت گھن گھرج و متعدد شہادتوں کے باوجود،نہتےفلسطینی اتنےڈرےنہیں پائے جاتے، جتنے موت سے ڈرے ہمہ وقت مرتے مرتے جینے پر مجبور، یہود پائے جاتے ہیں۔ اور جب گھر کی پالتو بلی بھی،اپنی جان بچانے پر آتی ہے تو عالم پر حکمران کرنے والے حضرت انسان کو بھی نرخرے سے پکڑ کر مار ڈالنے کی سکت اپنے میں پاتی ہے۔پھر کیسے بھارتیہ 25 سے 30کروڑ ہم مسلمان، ان سنگھی وحشی درندوں سے خوف کھائے جینا چھوڑ سکتے ہیں؟
اس دیش کے امن پسند ہندو بھائیوں کو اب یہ سوچنا چاہئیے کہ انہوں نے،ھندو احیاء پرستی کے زعم میں، ایک نہیں دو مواقع ان شدت پسند ھندو سنگھی مودی یوگی کو دے کر دیکھ لیا۔ ایک طرف انہوں نے 2014 سے پہلے کے تیز تر رفتار سے ترقی پزیر من موہن سنگھ حکومت والے بھارت کو صرف 11 سال کے قلیل عرصے میں، کس بے دردی سے لوٹ لوٹ کے سونے کی چڑیا بھارت کو کس قدر معشیتی طور قلاش وبرباد کر چھوڑاہے۔ وہیں پر اپنے پورے گیارہ سالہ سنگھی رام راجیہ میں، اکلوتے پائے گئے،سو سوا کے قریب مسلم و دلتوں کو، اپنے وحشی گرگوں کے ہاتھوں موپ لنچنگ اموات مرواتے یا مرتے دیکھ کر، اپنی مسلم دشمنی میں دل ہی دل جو ھندو بھائی خوش ہورے ہیں! کیا انہیں اس بات کا ادراک نہی ہے؟کہ انہی کے اس ویر ھندو سمراٹ 56″ چوڑے سینے والے مودی جی اور اسکے چیلے یوگی مہاراج کی نا اہل حکمرانی کے چلتے، اس کورونا کال دوسرے فیس میں 50 لاکھ کے قریب ھندوؤں کی دانستہ ھتیہ بھی ہوئی ہے۔ کیا اب بھی اپنی مسلم دشمنی یا ھندو احیاء پرستی کے زعم میں،منی پور پچھڑی جاتی ھندوؤں پر انسانیت سوز ظلم و ستم کئے جانے کے باوجود، 2024 عام انتخاب،مودی بھگتی یا سنگھ بھگتی میں، مودی مودی کے نعرے لگاتے پائے جاتے اور ان 50 لاکھ بے قصور ھندوؤں کے وحشی قاتل اور کل تک کی سونے کی چڑیا چمنستان بھارت کو اپنی لوٹ کھسوٹ سے تباہ و برباد کنگال کردینے والے،مودی یوگی کو ان کے اقتدار اعلی سے کھینچ گھسیٹ باہر پھینک دینے بجائے پھر دوبارہ انہیں اقتدار سوپنےوالے 1400 ملین باشندگان ھند کو یہ سنگھی مودی یوگی حکمران اور کتنا معشیتی و معاشرتی طور تباہ و برباد چھوڑتے ہیں یہ دیکھنا باقی رہ گیا ۔ وما علینا الاالبلاغ