احادیث پر اعتراض کرنا فیشن بن گیا ہے
تحریر و ترتیب س م ظفر
احادیث مبارکہ پر اعتراض کرنا اور تنقید کرنا فیشن بن چکا ہے جبکہ احادیث مبارکہ ہی انسانی شعور کی فکری صلاحیتوں اور بیداری کا اہم حصہ ہے ۔ لیکن معترضین جان بوجھ کر اعتراض کرتے ہیں تاکہ وہ سستی شہرت حاصل سکیں ۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کا دین اسلام سے کوسو دور کا بھی کوئ روحانی یا مذہبی تعلق نہیں ہوتا ہے کیونکہ ایسے اشخاص مومن نہیں بلکہ مرتد ہوتے ہیں ۔ احادیث امت محمدی کی سماجی رابطے کی فرنٹ لائن ہے اگر یہی مہندم ہوگئی تو زندگی شتر بے مہار کی طرح بن جائے گی ۔ جیسا کہ قادیانی گروہ کا ایک گروہ پرویزی خود کو مغرب میں عام لوگوں کے درمیان مسلمان کہہ کر بے وقوف بنا رہا ہے جبکہ قادیانیوں کا تینوں گروہ پرویزی ، لاہوری اور احمدی آئین پاکستان و شرعی حکم کے مطابق کافر قرار دے دئیے گئے تھے ۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک ذکری فرقہ بھی جو خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن مسلمان ہرگز نہیں ہے یہ گروہ صرف ذکر الہیٰ کرنے پر زور دیتا ہے ۔ نماز و دیگر امور شرعی کا منکر ہے ۔
آئیے عام لوگوں کے علمی جستجو اور ذوقِ فکری میں اضافہ کرتے ہیں ۔ تاکہ احادیث مبارکہ کی حقانیت اور روحانیت کی روشنی میں زندگی کے سفر کا آغاز کریں ۔ محدثین کرام اور شارحین حدیث نے حدیث مبارکہ کو کئی مختلف موضوعات پر منقسم کیا ہے جن میں تین قسم کی احادیث کو درجہ بندی میں اولیت حاصل ہے ۔ ایک وہ حدیث جسے رب العالمین عزوجل کے اپنے الفاظ کو حدیث میں شمار کیا جاتا ہے یعنی وہ معلومات جو اللہ تعالی نے اپنے نبی کے ذریعے انسانوں تک بھیجا ۔
دوسرا الہام یا القا ہے جسے تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے قلب مطہرہ یا اذہان پاک پر اتارا جاتا ہے جسے سمجھ کر وہ امت کو پیغام خداوندی پہنچاتے ہیں اسی الہامی صفت کی ایک صورت وحی کی بھی ہے جسے باقاعدہ مقرب فرشتہ خاص کے ذریعے پیغام الہی کو محبوب نبی تک پہنچایا جاتا ہے ۔ اس کی مثال دیکھیے اس جنگ کی یعنی خیبر کے جنگ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے کھجور کے درختدرخت یہودیوں کے کٹوا دیے کیونکہ فرشتہ خاص پیغام خداوندی لیکر آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پیغام دے کر روانہ ہو گیا ۔ حالانکہ اس نوری بات کا ذکر قرآن کریم میں بعد میں وارد ہوا اور الہام یا القا دوران جنگ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح یابی کے لیے پہلے ہی دل و دماغ میں اتار دیا ۔
تیسری صفت یا قسم حدیث کی وہ پاکیزہ باتیں ہیں جو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اُمیتوں کو اسلامی و دینی تربیت کے لئے سیکھایا ، بتایا اور حکم دیا کرنے کا ۔ جس حرام و حلال ، گناہ و ثواب ، فرض و واجب ، مکروہ و مستجاب جیسے اہم ترین شرعی مسائل ہیں ۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرتی زندگی سنوارنے کا امور سر انجام دیا جاتا ہے ۔ اس کے بغیر اسلامی تعلیمات اور سماجی معاشرہ ہیجان و افراتفری کا شکار رہے گا ۔