
گزرے سال کی تلخ یادیں اور نئے سال سے توقعات
ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ : 8969648799
ہر سال نیا سال آتا ہے گزر جاتا ہے اور اپنی تلخ و شیریں یادوں کا نقش چھوڑ جاتا ہے اور گزرے ہوئے سال میں کچھ ایسے واقعات ،سانحات اور حادثات رونما ہو تے ہیں جو تاریخ کا حصّہ بھی بن جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر 2002,1992,1964,1962,1947 ,2014, وغیرہ کے ذکر سے ہی پوری تاریخ سامنے آجاتی ہے ۔ ایسا ہی تاریخی سال 2023 ءبھی نہ صرف اپنے ملک کے لئے بلکہ بیرون ممالک کے لئے بھی رہا ۔
آج ہم نئے سال 2024 ءمیں داخل ہوئے ہیں اور ہر کی زبان پریہ دعا¿ ہے کہ یہ سال امن و امان کا سال ہو ، غربت ، بے روزگاری ، بے ثباتی ، بے پناہی ، بے بسی ،نفرت ، تشدد، انتشار ، خلفشار، تعصب وغیرہ سے ہم تمام لوگوں کو اللہ پاک محفوظ رکھے اور ہم جبر و ظلم کی آندھی کے رخ پر امن و آشتی کے چراغ روشن کرنے میں کامیاب ہوں ۔
لیکن یہ بھی اتفاق ہے کہ سال گزشتہ کے جانے سے قبل ہی ملک کے حکمراں نے کئی مثالیں دیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ سال شاندار سال رہا ۔ جس کے جواب میں طنزیہ لہجے میں جواب دیا گیا کہ بے روزگاری بڑھی، کمائی گھٹی ، روپئے کی قدر میں کمی آئی ، ایکسپورٹ کم ہوا ، مہنگائی بڑھی، بھوکوں کی تعداد بڑھی اور ملک پر قرض کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھا پھر بھی ہمارے وزیر اعظم مودی اپنی ”کامیابیوں “ کے اعداد شمار اپنے من کی بات میں بیان کرتے ہوئے بتا رہے ہیں ’شاندار سال ‘ رہا۔ ایسے شاندار سال کے تصور پر بی ایس پی کی صدر مایا وتی نے ملک کی حکمراں جماعت بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی نے ابھی تک تبدیلی ¿ مذہب ، لو جہاد ، مدرسہ سروے اور ہیٹ اسپیچ جیسے لغو کاموں میں ہی وقت برباد کیا ہے ۔
سال گزر جانے کے بعد اگر سال گزشتہ کا جائزہ لیا جائے توہمیں بہت زیادہ مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوریہ سوچتا ہوں کہ کاش سال گزشتہ بقول مودی شاندار ہوتا تو آج ہم یقینی طور پر اس سال میں رونما ہونے والے شاندار واقعات کا ذکر کرتے ہوئے خوش ہوتے ، ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ،لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ ویسے ہمیں اس امر کا ضرور اعتراف کرنا چاہئے کہ قدرتی آفات کے آگے انسان بلا شبہ مجبور اور بے بس ہوتا ہے ۔ مثلاََ اچانک آنے والی آندھی ، طوفان ،سیلاب ، زلزلہ وغیرہ ، لیکن جب حالات ، واقعات ، حادثات اور سانحات دانستہ طور پیدا شدہ ہوں تو وہ بہت تکلیف دہ اور لائق مذمّت ہوتے ہیں ۔ جس کا سلسلہ مسلسل چل رہا ہے ۔ راہل گاندھی ہوں ، رویش کمار ہوں اور اب تو ان کے سُروں میں سُر ملانے والوں میں ورون گاندھی بھی شامل ہو گئے ہیں ۔ان کے ساتھ ساتھ ملک کے سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں دانشور وں، ادبی ، فلمی فنکاروں ، سائنسدانوں ،سابق افسران وسابق فوجیوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور غیر ممالک کے حقوق انسانی کے متحرک رضاکاروں کے ذریعہ ملک میں دانستہ طور پر اپنے سیاسی مفادات کے لئے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کاماحول بناے کے لئے ہندو ، مسلم کئے جانے، لوگوں کے درمیان خلیج پیدا کئے جانے ، نفرت کی چنگاری کو ہوا دینے ، عدم رواداری ، تشدد اور خوف و دہشت کی فضاتیار کئے جانے کی دانستہ کوششوں کی مذمّت کئے جانے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسی دانستہ کوششوں کے باعث ایک طرف جہاں ملک کو سماجی و معاشی طور پر زبردست نقصان پہنچ رہا ہے وہیں ایسے غیر آئینی اور غیر انسانی شعوری کوششوں سے ملک کی شبیہ بھی خراب ہو رہی ہے ۔ اس لئے کہ ہمارا ملک پوری دنیا میں سب سے بڑے جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے ۔صدیوں سے اس ملک میں مختلف مذاہب ، زبان ، رسم و رواج، ذات پات ،رنگ و نسل کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کے امین ہیں ۔ لیکن افسوس کہ مٹھی بھر لوگوں کو ملک کی شاندار روایت سے صرف اس لئے چڑ ہے کہ اس روایت سے ان کے سیاسی مقاصد کے حصول میں رخنہ پڑتا ہے ۔ ملک کے بنیادی مسائل پر برسر اقتدار حکومت سے اگر کوئی فرض شناس میڈیا سوالات کرتا ہے، تنقید کرتا ، ایسے ناگفتہ بہ حالات کی مذمت کرتے ہوئے اپنے صحافتی فرائض نبھاتا ، تو شاید ایسی بری حالت نہیں ہوتی۔ لیکن افسوس کہ ملک کا میڈیا،عام طور پر اپنے کروڑپتی مالکان کے ٹیوننگ پر صحافت کی ساری اخلاقیات ، صحافتی تقاضوں اور معیار کو در کنار کرتے ہوئے رقص کرتا نظر آتا ہے ۔ جس کی مذمت کا سلسلہ پہلے ببانگ دہل کیا جاتا تھا اور اب دبی زبان سے ہوتی ہے ۔اس لئے کہ موجودہ حکومت کو سوال کرنے والا قطئی پسند نہیں ہے ۔ سوال در سوال کرنے والے راہل گاندھی کو تو ہمیشہ کے لئے پارلیمنٹ سے ہی نکال باہر کیا گیا ۔اگر عدالت کی مداخلت نہ ہوتی تو حکومت ایسے سوال کرنے والے سے ہمیشہ کے لئے نجات پا جاتی ۔ ابھی ابھی پارلیمانی سیشن میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پارلیمنٹ میں ہونے والی بھاری چوک پر سوال کرنے اور وزیر اعظم و وزیر داخلہ کے بیان کا مطالبہ کرنے پر جس طرح ممبران کو معطل کیا گیا ۔ ایسا دنیا کے کسی جمہوری ملک میںایسی مثال اب تک دیکھنے کو نہیں ملی ۔ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار پر برقرار رہنے کے لئے ملک کے اقلیتوں کے ساتھ طرح طرح کے غیر آئینی اور غیر انسانی سلوک کا سلسلہ سال گزشتہ بھی پوری شدت سے جاری رہا ۔ موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس ملک پر تقریباََ ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن ان پورے ادوار میں مسلم حکمرانوں کادانستہ طور پر ایسا کوئی کردار و عمل نہیں رہا جسے مذہب کی بنیاد پر دشمنی قرار دیا جائے ۔ اس لئے اب کہا جارہا ہے ملک کی جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ غلط لکھی گئی ہے اس لئے اب نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے ۔ اب تک کتنی تاریخیں بدل بھی دی گئی ہیں اور تبدیل شدہ تواریخ کو بچوں کے نصاب میں شامل بھی کر لیا گیا ہے ۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے اپنے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ’ہندوستان میں تاریخ غلط لکھی گئی ہے لیکن اب حکومت ہند پوری طاقت کے ساتھ نئی اور درست تاریخ لکھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ہندوستان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی تاریخ اور تعلیم ہے ۔ ‘ وزیر تعلیم کے اس بے تکے بیان کے جواب میں ریاست بہار کے سابق وزیر تعلیم اور موجودہ وزیر مالیات وجئے چودھری نے بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا تھاکہ ’ دراصل تاریخ میں کوئی کردار نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی کے لوگ اب بے چینی محسوس کر رہے ہیں ۔ بی جے پی ملک کی تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ گندی ذہنیت کی علامت ہے ، اب تاریخ کو دوبارہ لکھنے سے سچ کیسے بدلے گا ۔ ‘ مسلمانوں کے نام کو ہر ممکن طور پر مٹانے کی پوری کوشش جاری ہے۔ ملک کی تاریخی و ثقافتی وراثت کو مٹا کر ملک کی شاندار پہچان کو ختم کر دینے کی یہ مزموم کوشش ہے۔ جہالت اور نفرت کی انتہا یہ ہے کہ ملک کے فرقہ پرستوں کو علّامہ اقبال کی اسی ملک کے لئے کہی گئی دعائیہ نظمیں بھی ناقابل برداشت ہیں ۔ گزشتہ سال نے ملک میںیہ افسوسناک منظر بھی دیکھا کہ اسکول میں’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ یا ’ لب پہ آتی ہے دعا¿ بن کے تمنّا میری ‘ جیسے ترانے گائے جانے پر اعتراض کیا گیا اور اسکول کے اساتذہ کو اتنے ”بڑے جرم “ کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ۔ اب تو مسلمانوں کے قاتلوں اور زانیوں کو بھی سنسکاری اور معزز بتاتے ہوئے انھیں عمر قید سے چھڑا کر جو پیغام دیا جا رہا ہے اس سے ملک کے مسلمان خوف و دہشت میں تو مبتلا ہونگے ہی لیکن اس پیغام سے بیرون ممالک میں کیا امیج بنے گا ؟ کا ش کہ اس پہلو پر لمحے بھر کے لئے بھی سوچا گیا ہوتا ۔ گجرات کے سانحہ کو دنیا نے دیکھا اور عالمی سطح پر مذمّت کی گئی لیکن اس کی سچائی بتانے والی معروف سماجی کارکن تیستہ ستلواڑ اور سابق آئی پی ایس افسر آر جی سری کمار وغیرہ کو حوالات میں بھیجے جانے کی بے رحم حقیقت کا بھی گواہ بنا تھا ۔ کرناٹک کے اسمبلی انتخاب میں حجاب پر ہنگامہ کھڑا کرکے منافرت کی زبردست کوشش کی گئی ۔انتہا تو یہ ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی نے ریاست کے ماحول کو پوری طرح فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لئے ریاستی صدر نلن کمار کٹیل نے کارکنوں کو سڑک ، سیوریج جیسے مسائل کے بجائے لو جہاد پر زور دینے کی تلقین کی تھی تاکہ ریاست میں اشتعال پھیلے اور انتخاب میں کامیابی ملے ۔ لیکن یہاں اس سال بی جے پی کو شرمناک شکست ملی ۔ سال گزشتہ میں کانگریس نے بے روزگاری ، معیشت کی تباہی ، بد عنوانی ، صنعتکاروں کے بینکوں کے ہزاروں لاکھوں کروڑ روپئے کی معافی وغیرہ جیسے بڑے اور اہم مسئلے پر ایشو بنا کر راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب میں اتری لیکن ان ریاستوں میں اسے شکست ملی جو کہ ناقابل یقین ہے ۔بعد میںن یہ عقدہ کھلا کہ یہ کامیابی دراصل رائے دہندگان کے ووٹوں کو ای وی ایم کی کاریگری نے بدل ڈالا ۔ اس کے بڑی تعداد میں ثبوت اکٹھا کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کو انصاف کے لئے دیا گیا ، لیکن افسوس کہ الیکشن کمیشن بھی اس وقت ملک کے میڈیا کی طرح اپنے وقار کو کھو چکا ہے ۔ اس کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیںاور ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر سے انتخاب کرائے جانے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔اس لئے کہ اب ظاہر ہو چکا ہے کہ اتنی شدت سے عوامی مخالفت کے باوجود بی جے پی کیونکر کامیاب ہو رہی ہے ۔ دراصل بی جے پی کی کامیابی کا راز ای وی ایم میں پوشیدہ ہے ۔اس سال کے ابتدا¿ میں ہی ملک کاپارلیمانی انتخاب ہونے والا ہے اس لئے ای وی ایم ہٹاو¿ ، دیش اور دیش کا آئین بچاو¿ کے نعرے ہر چہار جانب سے سننے کو مل رہے ہیں ۔ملک میں مذہبی فرقہ واریت کو عام انتخابات میں کامیابی کا ضامن سمجھتے ہوئے اس نئے سال کے ماہ جنوری کی 22 تاریخ کوبابری مسجد کو منہدم کر اس پر آدھے ادھورے رام مندر کی تعمیر کے افتتاح کو جو رنگ دیا جا رہا ہے اس سے پورے ملک میں پولارائزیشن کی فضا بن سکتی ہے ، جو موجودہ حکومت کی منشا¿ ہے ۔ حالانکہ اس افتتاح پر ایودھیا کے سنتوں اور رشیوں کا احتجاج ہے کہ رام مندر کو سیاسی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور اس کا افتتاح مندر کی مکمل تعمیر کے بعد وزیر اعظم کے بجائے یہاں کے رشی مُنی کریں ۔ لیکن طاقت کے آگے ان بیچارے رشی منیوں کی کون سنتا ہے ۔ رام مندر افتتاح اس وقت کئی طرح سے تنازعہ کے گھیرے میں ہے ۔ بابری مسجد انہدام سے لے کر رام مندر کے لئے راستے ہموار کرنے والے لال کرشن اڈوانی اور دیگر رہنماو¿ں کو رسمی طور پر دعوت نامہ تو دیا گیا ہے لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں رام مندر افتتاح کے موقع پر آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ دراصل ان لوگوں کے پہنچنے سے وزیر اعظم کو پس پشت جانے کا خطرہ ہے جو وہ کسی قیمت پر بھی نہیں چاہتے ۔ سال گزشتہ میں بابری مسجد ہی کی طرح متھرا اور کاشی کی تاریخی مساجد اور عید گاہ پر بھی قبضہ کئے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ اس غاصبانہ کوشش سے بھی فرقہ واریت کے زہریلے ماحول کا ماحول تیار ہوگا، جو آر ایس ایس اور بی جے پی کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچائے گا۔
ملک کے مسلمانوں کے ساتھ آئے دن ہونے والے سلوک اور ان کے مذہبی و تاریخی عباد گاہوں کے ساتھ مسلسل ایسے ہی غیر منصفانہ، ظالمانہ اور غیر آئینی حرکتوں نیز مسلمانوں کی بے اعتنائی اور بے وقعتی کو دیکھتے ہوئے چند روز قبل شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھ بیر سنگھ بادل نے کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان سیاسی طور پر تنزلی کا شکار ہیں ۔قومی سطح پر ان کا کوئی متحد پلیٹ فارم نہیں ہے جس کی وجہ کر ملک کی سیاست میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔رہی سہی کسر بی جے پی کی حکومت نے نکال کر ان کی سیاسی وقعت کو صفر کر دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک کی پندرہ ریاستوں کی وزارتوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے ۔ملک میں اٹھارہ فی صد مسلمانوں کی آبادی ہے اور سکھ صرف دو فی صد ہیں پھر بھی سکھوں کی اپنی قیادت ہے لیکن مسلمانوں کی اپنی کوئی قیادت نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے یہ پورا بیان ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے شرمناک اور ا فسوسناک ہی نہیں بلکہ تازیانہ ہے اور سال گزشتہ کا نچوڑ ہے ۔ کچھ اسی طرح کا بیان جاتے ہوئے سال میں جن سوراج کے رہنما¿ پرشانت کشور نے جو بہار کے لوگوں کو سیاسی طور پر جگانے کے لئے مختلف علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں، اپنے دورہ کے دوران انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہے جو کہ 18 فی صد ہے لیکن افسوس کہ ان کے اندر قیادت کا فقدان ہے ۔ ملک کے مسلمان کبھی لالو کو ، کبھی ملائم کو کبھی مایاوتی کو کبھی ممتا کو اپنا رہنما¿ مان لیتے ہیں جو کبھی کان کے خواہ نہیں ہوئے ۔مسلمانوں کی بے وقعتی اور بے اثر ہونے کا رونا ہم اکثر روتے رہتے ہیں ، لیکن غیر مسلموں نے جس طرح ہمیں آئینہ دکھایا ہے ،وہ بے حس مسلمانوں کے لئے کچھ بھی نہیں لیکن حسّاس مسلمانوں کے لئے لمحہ¿ فکریہ ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭