اسلامیات،افسانہ و غزلیات

غزل

 

لوگ پیتے ہیں سو میخانے کے در جاتے ہیں
یہ جو واعظ ہیں سرِ شام کدھر جاتے ہیں

مفلسی سچی کہانی نہیں کہنے دیتی
شکل بچوں کی نظر آتے ہی ڈر جاتے ہیں

اب کسی خواب سے وابستہ نہیں رہنا ہے
آنکھ کھلتے ہی حقیقت میں بکھر جاتے ہیں

وہ جو کہتے تھے شرافت نہیں جانا اس جا
رند سے پہلے پہل اس کے پسر جاتے ہیں

ہم کو معلوم ہے کس دست نے پتھر پھینکے
اپنوں سے کیا کہیں چپ چاپ گزر جاتے ہیں

میں نے کل تاروں کی وادی میں تھا اعلان کیا
چاند کے ساتھ نہ جانا وہ جدھر جاتے ہیں

ایک ہی شخص میسر ہو مگر پورا ہو
ایک ہی شخص کی تقدیر میں گر جاتے ہیں

یار کس زعم میں کل کا کریں وعدہ تجھ سے
میں نے دیکھا ہے جسے جینا تھا مر جاتے ہیں

کیا یہ کم ہے کہ ترے عشق کا اظہار ہوا
ورنہ سب وعدوں سے برجستہ مکر جاتے ہیں

تجھ کو دیکھے سے تڑپتا ہے کہ آخر دل ہے
حسن نشتر ہے سبھی دل میں اتر جاتے ہیں

وقت نے سارے مسیحا کو چڑھایا سولی
لوگ اب زخم لٸے دیکھو کدھر جاتے ہیں

یہ مرا خوف محبت کے علاوہ ہے میاں
یوں ہی سوتے ہوۓ روتے ہیں یا ڈر جاتے ہیں

حسان جاذب ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button