
تماشہ دیکھنے کا ہے کرنے کا نہیں: زین شمسی
زین شمسی
محترم عزت مآب وزیر اعظم صاحب نے جیسے ہی بھوپال کی ایک ریلی میں اندھ بھکتوں کے درمیان یکساں سول کوڈ کو اپنے نرالے اندازمیں ظاہر کیا، ان کی مشینری اور خاص کر انکا میڈیا مسلم گلی کوچوں میں کیمرہ لے کر دوڑ پڑا اور پیڈ اینکروں نے ٹی وی پر مسلمانوں کے نام نہاد داڑھی والے دانشوروں کو مدعو کر کے چیخ و پکار کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ مسلمانوں کا ایک سب سے بڑا طبقہ جس کی سمجھداری کہیں گروی رکھی ہوئی ہے ان کی پریشانی دیکھنے لائق ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اب اس ہندوستان میں ان کی نمازوں پر پابندیاں اور اذانوں پر بندشیں عائد ہونے والی ہیں اور اب بھارت کے تمام مسلمان ہندوئوں کے ریتی رواج کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے مجبور کئے جائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ سرکار کے ساتھ ساتھ آل انڈیا پرسنل بورڈ نے بھی اب تک ایسا کوئی خاکہ یا ڈرافٹ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا ہے کہ جس پر مباحثہ و دلالت ہو کہ آیا یکساں سول کوڈ اور اور مسلم پرسنل لا کے درمیان کون سا ایسا تضاد ہے جو مسلم مخالف پارٹی یعنی بی جے پی ختم کرنا چاہتی ہے۔ دراصل مسلمانوں اور بی جے پی کے درمیان اتنی بڑی خلیج قائم ہو چکی ہے کہ جس میں مسلمانوں کو محسوس ہوتا ہے کہ بی جےپی کے تمام کارنامے مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانے کے لئے ہی ہوا کرتے ہیں۔ چونکہ مودی سرکار اپنی طویل مدتی حکومت کے دوران مسلمانوں کا وشواس جیت ہی نہیں پائی تاہم انہوں نے سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس کا نعرہ بلند کیا تھا ،لیکن یہ نعرہ بھی کئی نعروں کی طرح ٗ جملہ ٗمیں تبدیل ہوگیا۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ آر ایس ایس کی پالیسی سازی کے ساتھ چلنے والی بی جے پی حکومت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بھارت میں رہنے والے ہر ایک طبقے اور ذاتوں کے ساتھ برابری کا سلوک روا رکھ رہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ غریبوں اور نوکری پیشہ لوگوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر نیچے لے جانے کے لئے اپنی پالیسی سازی کے تحت وہ مسلمانوں کا چہرہ سامنے رکھتی ہے۔ نوٹ بندی، سب کے لئے نقصاندہ ثابت ہوئی، مگر تشہیر یہ کی گئی کہ اس سے مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان ہوا، این آر سی میں کاغذ دکھانے کی بات کو لے کر بھی یہ مشتہر کیا گیا کہ مسلمانوں کے پاس کاغذ نہیں ہے اور ان سب کو پاکستان بھیجا جائے گا، اس کے لئے این پی آر کا شوشہ چھوڑ دیا گیا، ملک کے بھولے بھالے خاص کر دلت اور بہوجن سماج کے لوگوں نے جنہیں اس کا سب سےبڑا نقصان ہونے والا تھا خاموش رہے اور اسے مسلمانوں کا احتجاج سمجھتے رہے، جبکہ بادشاہ ، نواب اور جاگیر دار رہ چکے مسلمانوں کے پاس زمین کے ہی نہیں بلکہ جاگیرداری کے بھی کاغذات موجود ہیں۔ اس قانون سے ان کا سب سےبڑا نقصان ہونے والاتھا جنہوں نے دبنگئی ، زور آوری اور غیر قانونی طور پر وقف اور مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ کرونا میں لاشوں کا سلسلہ تبلیغی جماعت کو سامنے لا کر روک لیا گیا۔مسئلہ کشمیر کا حل اور رام مندر کے نرمان کی تشہیر کے تحت ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کا نہ ختم ہونے والا مسئلہ اس طرح آسان کر دیا گیا جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔لوگوں کا مائنڈ سیٹ اتنی خوبصورتی کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا کہ وہ بھوکا رہنا چاہتے ہیں مگر روزگار اور سستی قیمتوں میں ملنے والے آٹا، دال اور پٹرول کی طرف سے بے گانہ ہو چکے ہیں ، بلکہ یہ بھی کہتے سنا جانے لگا کہ جو لوگ بے روزگاری اور مہنگائی پر بات کرتے ہیں وہ دیش کے دشمن ہیں۔ گویا مسلمانوں کو سامنے رکھ کر دیش کو مہنگائی اور بے روزگاری کی زد میں لے جانے کی بی جے پی کی پالیسی اسی لئے کامیاب ہوگئی کہ اس نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کا نسخہ اہل ہند کو سمجھا دیا۔
اب الیکشن کا زمانہ آچکا ہے۔رام مندر تقریباً تیار ہے، قوی امکان ہے کہ نومبر یا دسمبر ماہ میں اس کا افتتاح نریندر مودی کے ہاتھوں عمل میں آجائے گا، لیکن اس افتتاح سے ان کے ووٹ فیصد میں اضافہ اس لئے نہیں ہوگا کہ بھکتوں نے اس ایشو کو ختم تسلیم کر لیا ہے۔ اس لئے اب کچھ نیا چاہئے، تو نئی چیزوں میں یکساں سول کوڈکو اب اور آگے آنےوالے الیکشن یعنی 2029 میں ہندو راشٹر کا ٹرمپ کارڈ استعمال ہونا ہی ہے ۔
یکساں سول کوڈ پر بحث بازی نریندر مودی کے بیان کے بعد ضرور شروع ہوئی ، مگر اب سے 11ماہ قبل ہی ریٹائرڈ جسٹس رنجن ڈیسائی کی قیادت والی کمیٹی اس سلسلہ میں اب تک تقریباً 63 میٹنگیں کرمنعقد کر چکی ہیں، مگر یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ اس سے قبل مسلم پرسنل لا بورڈ کا کوئی وفد ، اپنے کسی موقف کے ساتھ اس کمیٹی کے روبرو پیش ہوا یا نہیں اگر ہوا تو اس نے کس طرح کا ڈرافٹ سامنے رکھا یا کس شریعہ قانون کے ختم کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔ اب بھی جب لا کمیشن نے یکساں سول کوڈ پر سے لوگوں سے رائے مانگی تو مسلمانوں کی جانب سے کیا رائے دی گئی ، اس کی بھی تفصیل اب تک سامنے کیوں نہیں آئی؟ لا کمیشن کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک19لاکھ مشورے طلب ہوئے ہیں ، 13جولائی تک یعنی آخری تاریخ تک اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکساں سول کوڈ پر مسلمانوں کی چیخ و پکار کا کیا حل نکلنے والا ہے، جبکہ ان کی تنظیمیں لگاتار ہر مسئلہ پر شکست کا سامنا کر رہی ہیں ، مگر کوئی مربوط و مضبوط حکمت عملی اب تک تیار نہیں کی جا سکی ہے۔ تب جب شکست سامنے ہے تو احتجاج کا فائدہ کیا ہے۔؟سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یکساں سول کوڈ سے صرف مسلمانوں کا نقصان ہونے والا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہندوستان کا مسلم شریعہ قانون ، پاکستان ، انڈونیشیا ، ترکی ، سعودیہ ، افغانستان سے الگ ہے اور الگ ہے تو کیوں ہے اور الگ نہیں ہے تو آخر مسلم ممالک نے اپنے قانونوں میں تبدیلی کیوں کی ، جیسے تین طلاق کا معاملہ، یہ قانون کسی بھی اسلامی قانون میں تھا ہی نہیں ، تو یہاں کیوں تھا؟ اور اگر اسے مودی سرکار نے خواہ بدنیتی کے نظریہ سے ہی ختم کیا تو اس پر اب بھی پرسنل لا بورڈ کا موقف ویسا ہی کیوں ہے؟
دراصل چار پانچ چیزوں سے مسلمان خوفزدہ ہیں۔ پہلا تو یہ کہ وہ چار شادیاں نہیں کر سکتے ، دوسرا وہ طلاق نہیں دے سکتے، تیسرا لے پالک یعنی اڈوپشن یعنی بچوں کے گود لینے والا قانون اور چوتھے بہنوں یا بیٹیوں کی وراثت میں حصہ داری۔ ان میں چار شادیوں کا تو صفر فیصد، تین شادیوں کا صفر سے ایک فیصد۔ دوشادیوں یعنی ایک بیوی کے رہتے دوسری شادی کا صفر سے 5فیصد متوقع تناسب ہے۔طلاق پر قانون بن چکا ہے اور وہ پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج ایکٹ2019 میں داخل ہو چکا ہے۔ تیسرا گود لینے والا قانون ، جسے شریعہ نے سراسر غیر مذہبی قرار دے دیا ، جبکہ زید بن حارث کی مثال سامنے تھی۔اگراس میں یہ ردو بدل کر دیا جاتا کہ گود لینے والے بچے اپنے ماں یا باپ کے نام کا استعمال کر سکتے ہیں تو پھر چیزیں اپنے آپ میں آسان ہو جائیں گی۔ رہی بات بیٹیوں، اور بہنوں کی جائداد میں حصہ داری تو وہ تو ملتی ہی ہیں ہاں قانون نافذ ہونے کے بعد اس کے تناسب میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس پر سختی سے عمل ہو سکتا ہے۔ رہی بات نماز ، روزہ ، اذان، رسم و رواج تو اسے یہ سرکار چھو بھی نہیں سکتی کیونکہ یہ Fundamental Rightکے زمرے ہیں اور یہ ویسے ہی رہیں گے۔ تو زیادہ کودنے پھاندنے کی ضرورت نہیں ہے ، تب تک جب تک کچھ ایسی پابندیاں نافذ نہ کر دی جائیں جس سے اسلامی روح کو ٹھیس پہنچے۔مسلم علما کو سرکار کی مذمت کرتے تو دیر نہیں لگتی، مگر خود کو یکساں بنانے میں وہ تاخیر کرتے ہیں۔
دراصل اس قانون کے پس پشت سرکار کا اصل موقف بھارت کو منو اسمرتی کی راہ پر لے جانے کا ہے۔ اس قانون کی چہ میگوئیوں کے ساتھ ہی قبائیلی اور شمال مشرق علاقوں میں رہنے والی آبادیوں میں کہرام مچا ہوا ہے۔ ہندوئوں میں اتنی ذاتیں ہیں اور اتنے رسم و رواج ہیں ، کہ وہ سرکار کو یہ قانون نافذ ہی نہیں کرنے دیں گے۔ اس کا اشارہ اس بات سے لگ چکا ہے کہ خود بی جے پی کی ساتھ والی علاقائی پارٹیوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ناگالینڈ میں NDPD، میگھالیہ میںNPP،میزورم میں MNF،پنجاب میں SADنے صاف طور پر کہا ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے،تو حکومت خود اپنے ہی جال میں پھنس چکی ہے ، اس کے لئے یہ چیلنج دوسروں سے زیادہ خود کے لوگوں سے لڑنے کا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ خود کو ہار جانے سے بچنے کے لئے وہ کچھ ترمیمات لا سکتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ یکساں سول کوڈ نافذ ہو گیا ، جیسے آرٹیکل370میں تبدیلی لاکر اس نے کہا کہ آرٹیکل 370ختم ہوگیا۔