
اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے!
بھارت میں توہین رسالت کے نام پر اکثر مسلمانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاجات ہوتے ہیں،ان احتجاجات کے بعدبھلے ہی قصورواروں کو سزاملتی ہے یا نہیںیہ الگ بات ہے،لیکن احتجاج کرنے والے ضرور قصوروار بن جاتےہیں۔بات اترپردیش کی ہو یا پھر کرناٹک کی۔جب بھی توہین رسالت کی وارداتیں انجام پائی ہیں اس کے بعد مسلمانوں کوبڑی قیمت چکانی پڑی ہے،
حالانکہ مسلمانوں نے اپنے نبیﷺکی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف ہی کارروائی کرنے کیلئے مطالبات کرتے رہے ہیں،مگر پولیس یا حکومتوں کی جانب سے توہین کرنے والوں کے خلاف کارروائی کم ہوئی ہے،مسلمانوں پر زیادہ ظلم وستم ڈھائے گئے ہیں،اسی کڑی ایک مثال حیدرآباد میں دیکھنےکو مل رہی ہے۔
اس وقت حیدرآبادمیں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور وہاں کی حالت اترپردیش اور گجرات سے بُری ہوچکی ہے۔جتنے ظلم یوپی کےمسلمان نہیں سہے ہیں اُ س سے کہیں زیادہ ظلم حیدرآبادکے مسلمانوں پر ڈھائے جارہے ہیں۔پولیس جس طرح سے چن چن کر مسلمانوں کو تشددکا نشانہ بنارہی ہے اور جس طرح سے گھروں میں گھس کر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کررہی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ یوپی ہو یا دلی،پٹنہ ہو یا ممبئی یا پھر ہوبنگلورو یا حیدرآباد،حکومتیں الگ الگ ہی کیوں نہ ہو لیکن پولیس کی سوچ ،پولیس کا طرزِ عمل اور پولیس کا رویہ پورے ملک میں ایک جیساہے۔یہاں خاکی کے پیچھے جو چڈیاں ہیں وہ ایک جیسی ہیں،جس کی وجہ سے سارے ملک کے مسلمان پولیس کے نشانے پرموجودہیں۔
سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ حیدرآباد جیسے مسلم اکثریت والے اور مسلم قیادت والے علاقے میں جس طرح سے مسلمان غیر محفوظ ہیں کیا مسلمان یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں مسلمان محفوظ رہ پائینگے؟۔حالانکہ پولیس ریاستی حکومت کی تعمیل کرتی ہے،یہاں حیدرآبادمیں جو کچھ ہورہاہے وہ کس کے اشارے پر ہورہاہے یہ سب سے بڑاسوال ہے۔اگرتلنگانہ حکومت چاہتی تو توہین رسالت کے قصورو ار راجاسنگھ کے خلاف مزید کارروائی کرسکتی تھی،لیکن یہاں مسلمانوں پر اندھا دھن کارروائیاں ہورہی ہیں۔کیا ملک کا مسلمان کسی بھی ریاست میں محفوظ نہیں ہے؟۔
اس دوران ایک ہی سوال اٹھتاہے کہ کیا بھارت کے مسلمانوں کی صحیح اور بروقت قیادت کیلئے کوئی ایسا گروہ کیوں نہیں ہے؟۔حالانکہ قائدین کے نام پر مسلمانوں کے پاس کئی تنظیمیں ،کئی لوگ،کئی علماء،کئی سیاسی قائدین موجودہیں،مگر ان تمام کی جانب سے بروقت صحیح قیادت نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو ایسے سنگین حالات میں نقصان اٹھاناپڑرہاہے۔ہمارے درمیان بہت سے افراد اور تنظیمیں ایسے ہیں جو جنگ آزادی سے پہلے اور جنگ آزادی کے بعد قائم ہوئی ہیں،اُس وقت سے لیکر اب تک اُن تنظیموں کا ایک ہی ماڈیول ہے اور وہی طرزِ عمل ہے۔ان کے لائحہ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں رہی جبکہ فاشسٹ طاقتیں اور مسلمانوں پر مسلط حکمران وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ ہوتےرہتے ہیں۔
ترقی یافتہ اس دورمیں ہر دو تین مہینوں میں موبائل فون کی کمپنیاں اپنے فون کو اپ ڈیٹ کرتی ہیں کیونکہ وہ کمپنیاں جانتی ہیں کہ اس کا استعمال کرنے والے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں،ذرا سوچئے کہ جب ایک موبائل فون کا اپ گریڈیشن ہر دوتین مہینوں میں ہورہاہے تو مسلمانوں کی قیادت کا طریقہ کار نصف صدی سے ایک ہی طرز پر کیوں چل رہاہے۔
ہر تنظیم میں مخصوص افراد بھرے بیٹھے ہیں،نئی سوچ وفکر کو جگہ نہیں دی جارہی ہے،نئی قیادت تیارنہیں کی جارہی ہے،کئی لوگ تو ایسے ہیں جو قیادت کرنے کیلئے جوانی میں آئے تھے اب عمرکے آخری پڑائو میں ہیں،اب بھی وہ اپنے عہدوں سےدستبردار ہونانہیں چاہتے۔اللہ ان کی عمروں میں برکت دےاور ان کی قائدانہ فکر سے اُمت فائدہ اٹھائے،لیکن ساتھ ہی ساتھ ان قائدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بعد قیادت کرنے کیلئے نئی نسل کو تیار کریں۔حیدرآبادمیں جو دیکھاجارہاہے وہ دیوانی موٹر کی طرح نوجوانوں کا جذبہ ہے،ان نوجوانوں کا کنٹرول کسی کے پاس نہ ہونے کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہورہے ہیں۔
اب وقت آگیاہے کہ مسلمان بس اتنا سمجھ لیں کہ حیدرآبادمیں جب مسلمان محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں تو ملک کے کس علاقے میں انہیں تحفظ حاصل ہوگا۔