
ہندوستانی صحافت کا درخشاں ستارہ عالم نقوی اشرف علی بستوی، ایڈیٹر، ایشیا ٹائمز
آج ہندوستانی صحافت کا ایک روشن باب بند ہو گیا، ملت اسلامیہ ہند کے عظیم ہمدرد اور ملی اتحاد کے علمبردار، عالم نقوی صاحب، اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ مرحوم نہایت مخلص اور وفادار شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے ہمیشہ اپنی تحریروں کے ذریعے ملت کی راہنمائی کی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششیں کیں۔ وہ دل سے ملت کے مسائل کے حل کے لیے بے چین رہتے اور ان کی فکر کا محور ہمیشہ ملی اتحاد اور مسلکی اختلافات کا خاتمہ رہا۔
میری پہلی ڈیجیٹل ملاقات عالم نقوی صاحب سے 2014 میں اس وقت ہوئی، جب میں نے ایشیا ٹائمز اردو ویب سائٹ کا آغاز کیا۔ نقوی صاحب کے کالم مستقل طور پر پبلش کرنا شروع کیا، جس کے بعد ہمارا ٹیلیفونک رابطہ قائم ہوا۔ ان کی گفتگو ہمیشہ محبت اور خلوص سے بھرپور ہوتی تھی، اور ان کی خورد نوازی نے ہر بار دل کو چھوا۔ بالمشافہ پہلی ملاقات 7 مئی 2018 کو علی گڑھ کے ابن سینا لائبری میں ہوئی، جہاں مرحوم سے ملت کے مختلف مسائل پر گہرا تبادلہ خیال ہوا۔ مرحوم سے فون پر جب بھی گفتگو ہوتی، ہمیشہ میرے کاموں کی کھلے دل سے تعریف کرتے، ان کی حوصلہ افزائی مجھےعزم سے بھر دیتی ۔
عالم نقوی صاحب کے ساتھ کا واقعہ یہاں نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے بات 2016 کے ذی الحجہ کے مہینے کی ہے۔ دہلی کے ایک بڑے اخبار نے ایک ایڈیٹوریل میں ایسی باتیں تحریر کیں ، جن سے ملی اتحاد کو نقصان پہونچنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ۔ سوشل میڈیا پر ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی ، مسلکی مجاہدین آستینیں چڑھا کر کود پڑے۔ میں نے اخبار کے مدیر محترم کو سوشل میڈیا کے ذریعے معاملے کی سنگینی سے متوجہ کیا، مگر وہ اپنی رائے پر قائم رہے۔ یہ مسئلہ اس حد تک سنگین ہو سکتا تھا کہ شیعہ سنی جھگڑے کی نوبت آسکتی تھی ۔ میں نے فوراً عالم نقوی صاحب سے رابطہ کیا، انہیں صورتحال سے آگاہ کیا اور وہ متنازعہ ایڈیٹوریل بھی ارسال کیا۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ اگر وہ مناسب سمجھیں تو اس موضوع پر ایک مضمون تحریر کریں تاکہ اس تنازعے کو روکا جا سکے۔
نقوی صاحب نے اسی شام ایک مدلل اور متوازن تحریر ارسال کی، جو میں نے فوراً ایشیا ٹائمز پر شائع کی۔ ان کی تحریر نے معاملے کی شدت کو کم کیا اور ہم نے مل کر ایک ممکنہ تنازعے کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے، یقیناً نقوی صاحب نے اپنی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات میں اپنا کردار ادا کیا ہو گا۔
آخر وقت تک اپنے قلم کی حرمت اور اصولوں کی حفاظت کرنے والے اس مرد مجاہد نے آج دنیا سے رخصت ہو کر ہمیں ہمیشہ کے لیے اداس کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی خدمات کا بہترین اجر عطا کرے۔ آمین۔