مضامین و مقالات

محبتِ رسول ﷺ پر ظلم کا سیاہ باب، یوگی کی بربریت کہیں یا مسلم قیادت کی بے حسی ؟؟؟

احساس نایاب شیموگہ ۔۔۔۔

کانپور کی گلیوں میں اس سال میلاد النبی ﷺ کا جشن ایک ولولہ انگیز نعرے کی صورت میں گونجا
"آئی لو محمد ﷺ”۔
یہ نعرہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ عاشقانِ رسول ﷺ کے دلوں کی آواز بن گیا۔ جب مسلمانوں نے اپنے گھروں اور گلیوں کو محبت رسول ﷺ کے پوسٹروں سے سجایا، تو چند شرپسند عناصر کو یہ گوارا نہ ہوا۔ انہوں نے اس پر ہنگامہ کھڑا کر دیا، اور افسوسناک طور پر، اس واقعے کو بنیاد بنا کر پولیس نے مسلمانوں کے خلاف ایک نئے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کر دیا۔

4 ستمبر 2025 اس دن نہ کوئی قتل ہوا تھا ، نہ چوری، نہ کوئی ہنگامہ۔
نہ کوئی سیاست تھی، نہ کوئی فساد تھا ۔۔۔
نوجوانوں کا "جرم” صرف اتنا تھا کہ انہونے اپنے نبی ﷺ سے محبت کا اعلان کیا۔
اس اعلان میں بھی ایک جذبہ تھا، ایک ایمان تھا، ایک ایسے نبی ﷺ سے عشق کا اظہار تھا جنہوں نے انسانیت کو روشنی دی۔

مگر پولیس نے اس محبت کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے خطرہ قرار دے کر "I Love Muhammad ﷺ” کا پوسٹر لگانے پر 9 نامزد اور 15 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی۔

پولیس کی اس یکطرفہ اور ظالمانہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجات شروع ہو گئے۔

یہ واقعہ صرف کانپور تک محدود نہ رہا، بلکہ پولیس کی ظالمانہ کارروائی کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں شدید ردعمل سامنے آیا۔
بریلی، سہارنپور، مرادآباد اور دیگر شہروں میں عاشقانِ رسول ﷺ سڑکوں پر نکل آئے۔ جن کے دل عشقِ نبی ﷺ سے لبریز تھے، وہ اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر کفن باندھ کر میدان میں اُتر آئے۔

ان کے چہروں پر آنسو تھے اور ہونٹوں پر یہی نعرہ گونج رہا تھا:
"ناموسِ رسالت پر جان بھی قربان”

یقین، عشق، اور غیرت سے سرشار ان عاشقوں نے پرامن انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا، اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ
محبتِ رسول ﷺ کوئی جرم نہیں، بلکہ ایمان کی علامت ہے۔

لیکن افسوس کہ یہ محبت، یہ پرامن اظہارِ عقیدت، پولیس اور انتظامیہ کو برداشت نہ ہوئی۔ تو اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے
پولیس نے کئی شہروں، کانپور، بریلی، سنبھل اور رامپور میں پرامن مظاہرین کو للکارا، پھر اچانک لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس کے گولے داغے،
لوگ بھاگتے رہے، عورتیں اور بچے چیختے رہے، مگر ظالموں کی لاٹھیاں رُکیں نہیں۔
گھروں کے دروازے توڑ کر نوجوانوں کو گھسیٹ کر باہر لایا گیا،
ایف آئی آر میں ان کے نام ڈالے گئے۔
یہی نہیں، بعض علاقوں میں پولیس نے گلیوں میں خوف پھیلانے کے لیے راؤنڈ ڈالے،
جیسے محبتِ رسول ﷺ کا اعلان کرنے والے سب خطرناک مجرم ہوں۔
اور نہتے نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر حوالات میں بند کر دیا گیا۔ جس میں نابالغ بچے اور کئی راہگیر بھی شامل ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق پولس نے کئی گھرون میں جبرا توڑ پھوڑ بھی کی ہے ۔۔۔۔

یہاں پر عام مسلمانوں کی بات کی جائے تو
گرفتار نوجوانوں کے بوڑھے والدین تھانوں کے باہر اپنے بیٹوں کو چھڑانے کے لیے اشکبار کھڑے رہے،
جبکہ مائیں، جن کی گودوں میں محبتِ رسول ﷺ کی تربیت ہوئی تھی اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرتے کرتے اپنے آنچل کو آنسوؤں سے بھگو بیٹھیں۔ اور
گھر کے دروازے پر ہوئی ہر آہٹ پر دل کانپ اٹھتا ہے۔ مگر ان کے دلوں میں ایک چیز اب بھی زندہ ہے "محمد ﷺ کی محبت، یہ وہ محبت ہے جو ڈنڈے سہہ سکتی ہے مگر مر نہیں سکتی۔۔۔

یہان پر ایف آئی آر، اور گرفتاریوں کی بات کی جائے تو ۔
خبروں کے مطابق "I Love Muhammad ﷺ” کے پوسٹرز اور پرامن احتجاجات کے خلاف پورے ملک میں پولیس کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں۔
اب تک اس سلسلے میں ہزاروں ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں اور سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق

ملک بھر میں 21 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں، جن میں 1,324 مسلمانوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ اور
اب تک 38 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اتر پردیش میں سب سے زیادہ کریک ڈاؤن دیکھنے کو ملا، جہاں
16 ایف آئی آرز درج کی گئیں، اور 1,000 سے زائد افراد کو نشانہ بنایا گیا۔
دیگر ریاستوں میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں
گجرات میں 88 افراد کو نامزد کیا گیا،
جن میں سے 17 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ عشقِ رسول ﷺ کا پُرامن اظہار بھی اب شک کے دائرے میں لایا جا رہا ہے، اور ایک جذباتی وابستگی کو جرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ تمام واقعات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی محبت کے اظہار کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی،
مگر عاشقانِ رسول ﷺ نے ہر جگہ اپنی غیرت، حوصلہ اور قربانی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

یہ لوگ صرف الفاظ کے ذریعے نہیں، بلکہ اپنی جانوں کی بازی لگا کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ محبتِ رسول ﷺ کسی دباؤ یا ظلم سے ختم نہیں ہو سکتی۔
یہ جذبہ، یہ عزم، اور یہ ایمان کا نور ہر ظلم کے اندھیروں کو روشن کر دیتا ہے۔۔۔۔۔

مگر افسوس ہمیشہ کی طرح مسلم رہنماؤں کا کردار اس بار بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
ہزاروں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اور سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کئی مسلم تنظیموں نے محض رسمی بیانات جاری کئے اور خاموشی اختیار کرکے بےحسی و بزدلی کا مظاہرہ کیا۔
کسی نے صرف ٹوئٹ کر کے پرامن رہنے کی اپیل کی،
کچھ نے محض ڈپلومیٹک بیان دے کر اپنا دامن بچا لیا،
اور کئی ابھی تک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ستم تو تب ہوا جب کئیوں نے مسلمانوں کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کی نصیحت کرتے ہوئے حکومت کے اقدام کی حمایت کرڈالی اور مسلمانوں سے کہا
"پرامن رہیں، سڑکوں پر نہ اتریں۔”

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پرامن رہنے کے باوجود لاٹھی چارج کیا جائے، تو مسلمان کہاں جائیں؟
یہ قیادت کی کمزوری، بزدلی نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟
کیا کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اقتدار پر بیٹھے فرعونوں کے گریبان پکڑ کر اُن سے سوال پوچھے کہ
"پرامن طریقے سے نبی ﷺ سے محبت کا اظہار کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیوں ہوا ؟؟؟”
کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کیوں کیا گیا ؟؟؟

حکومت سے سوال کرنے کے بجائے الٹا نوجوانوں کے جذبے کو بغاوت کہنا سراسر ظلم ہے، یوں ان کے احتجاج کو جرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
جبکہ یہ وقت قیادت کا سب سے بڑا امتحان تھا، مگر افسوس کہ وہ امت کے آگے ایک بار پھر فیل ہو گئی۔
ان شاء اللہ تاریخ لکھے گی کہ جب محمد ﷺ کی محبت میں نعرہ بلند ہوا، تو ایک طرف دشمنان اسلام نے ڈنڈے برسائے، جیلیں بھریں، انصاف خاموش رہا، وہیں دوسرے جانب مسلم قیادت اپنی عالیشان خوابگاہوں میں سوئی رہی۔۔۔۔

اور اس دوران ایک عام مسلمان نے پھر ایک بار خود کو تنہا، لاوارث محسوس کیا۔
مگر اس کے حوصلے کم نہیں ہوئے، انہوں نے اپنے رب سے فریاد کی،
مساجد میں سجدے لمبے کئے،
اپنے نبی ﷺ کی محبت میں سینہ چوڑا کیا اور بلند آواز میں بار بار پکارا
"ہماری جانیں بھی چلی جائیں، لیکن نبی ﷺ کی ناموس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔”

آج مساجد میں سناٹا ہے اور گلیوں میں خوف کی فضا ہے،
مگر دلوں میں اب بھی ایک سوال گونج رہا ہے
"کیا نبی ﷺ کی محبت کا اعلان اس ملک میں اتنا بڑا جرم ہے کہ ہزاروں نوجوانوں پر ایف آئی آر درج کی جائیں؟”

بہرحال یہ احتجاج محض چند واقعات نہیں بلکہ عشق کا ایک نیا باب ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ آج بھی امتِ محمد ﷺ میں غیرت کی شمع روشن ہے، آج بھی ہم اپنے نبی ﷺ کے نام پر ہر قربانی دینے کو بےتاب ہیں۔

ہمیں یقین ہے کہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ہر آنسو، ہر زخم، ہر قید و بند کا ایک ایک لمحہ اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ جب ظالم کی لاٹھی کسی عاشقِ رسول ﷺ کے سر پر پڑتی ہے تو عرش ہل جاتا ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ خون بولے گا، یہ آنسو گواہی دیں گے، اور عدلِ الٰہی ان مظلوموں کو انصاف دلا کر رہے گا۔

اُس وقت تک یہ ہمارا عزم ہے کہ ہم خاموش نہیں رہیں گے، ہم جھکیں گے نہیں، ہم بکھریں گے نہیں۔ ہم اپنے نبی ﷺ کی محبت کے پرچم کو بلند رکھیں گے، چاہے اس راہ میں اپنی جان کی قربانی بھی دینی پڑے۔ یہی ہماری اصل زندگی ہے، یہی ہماری حقیقی کامیابی ہے۔

اے ایمان والو ! یاد رکھو
تاریخ گواہ ہے کہ جذبہ عشق کا یہ منظر نیا نہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوگا کہ مدینہ منورہ میں بھی گستاخ رسول ﷺ نے نبی کی شان میں توہین آمیز کلمات کہے تھے۔
جب نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی ہوئی، تو صحابہؓ نے ایک لمحہ ضائع نہیں کیا۔
اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اس فتنہ کا خاتمہ کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم محمد ﷺ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
"جو محمد ﷺ کی محبت میں غیرت نہ دکھائے، اس کے ایمان کا حساب لو۔”
ابوطلحہؓ نبی ﷺ کی حفاظت میں تیر اپنے جسم پر سہہ لیتے تھے اور کہتے تھے:
"یا رسول اللہ ﷺ، میرا جسم آپ پر قربان۔”
آج کے مسلمان بھی اسی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
چاہے ریاست انہیں سزا دے یا اپنے نام نہاد رہنما انہیں دغا دیں،
نبی ﷺ کے لیے ایف آئی آر تو محض ایک چھوٹی سی رکاوٹ ہے، ام شاءاللہ مسلمان ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button