
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام ایک کھلا خط !
احساس نایاب شیموگہ، کرناٹک
پرسنل لا بورڈ کے معزز اراکین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آج امت کی ایک بیٹی، دختر قوم، بطور ایک فکرمند فرد، ایک مسلمان، اور ایک قلمکار، آپ سے براہِ راست مخاطب ہے اور ہم آپ سے سوال کرنے، حالات سے آگاہ کرنے آئے ہیں۔
کیا آپ کو خبر ہے…؟
کہ وہ مدرسے، جو علم و نور کے مینار سمجھے جاتے تھے،
آج معصوم بچوں کے لیے خوف و وحشت کے اڈے بنتے جا رہے ہیں؟
کیا آپ جانتے ہیں…؟
کہ وقف کے تحت چلنے والے اداروں میں، جہاں قرآن کی آیات گونجنی چاہئیں،
وہاں معصوموں کی سسکیاں اور چیخیں دبائی جاتی ہیں ؟؟؟
کیا یہ دردناک حقیقت آپ کی نظروں سے اوجھل ہے، کہ نو سال، دس سال، بارہ سال کے بچے جو دین سیکھنے آئے تھے، آج ذہنی و جسمانی ہراسانی کا شکار ہیں؟
پرسنل لا بورڈ کے معزز حضرات !
ایسا ممکن نہیں کہ آپ کو ان تمام حالات کی خبر نہ ہو، جبکہ آئے دن سوشل میڈیا کے ذریعے مدرسوں کے اندرونی معاملات، یعنی بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی منظر عام پر آ رہے ہیں۔
آخر آپ کس مٹی کے بنے ہیں کہ آپ کی سماعتوں پر یہ چیخیں اثر نہیں کرتیں؟
آپ کی میٹنگز، آپ کے اجلاس یہ سب کس کام کے جب مدرسوں میں درندے آزاد ہیں ؟
اور جب کوئی والدین ہمت کر کے آواز اٹھاتا ہے تو بجائے انصاف دینے کے، شکایت کرنے والوں کو شرمندہ کیا جاتا ہے، ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، ، ان کی زبانیں بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آخر کیوں؟
کیا آپ نے مدرسے کو عدلیہ سے بالاتر کوئی ریاست بنا دیا ہے ؟
جہاں ظالم کو سزا نہیں، مزید حوصلہ ملتا ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی اس مجرمانہ خاموشی نے
قوم کے مستقبل پر کتنے اندھیرے ڈال دیے ہیں؟
لڑکیوں کے مدرسوں کی خبریں کم تھیں
کہ اب لڑکوں کے مدرسے بھی محفوظ نہیں رہے
نو سے چودہ سال کے بچے جن پر رحم کھایا جانا چاہئے تھا، ان پر قیامت توڑی جا رہی ہے۔
آپ کی لاپرواہی کی وجہ سے آج حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اب مدرسہ میں پڑھانے والے ایک استاد عالم کے اپنے بچے بھی محفوظ نہیں۔
جہاں پہلے غیر عالم اور عام مسلمان کے بچوں پر یہ ظلم ہو رہا تھا، وہ اب ایک عالم اور خود مدرسہ میں پڑھانے والے استاد کا بچہ بھی ان درندوں کا شکار ہو چکا ہے۔
ایسے اساتذہ، ایسے مہتمم، ایسے امام…
جو اپنی ذمہ داری کے نام پر گناہ چھپاتے ہیں،
آخر کیوں انہیں نکال کر باہر نہیں پھینکا جاتا ؟
آخر کیوں انہیں دوبارہ امامت، دوبارہ تدریس کا حق دیا جاتا ہے ؟
کیا آج دین کی حرمت، قرآن کی عظمت، امت کے مستقبل کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی ؟
یاد رکھیں!
آپ کی یہ خاموشی اور چشم پوشی نہ صرف قوم کو بدنام کر رہی ہے، بلکہ نیک اور دیانت دار علما کا حق بھی مار رہی ہے۔
جن علما نے اپنی زندگیاں قربان کر کے مدرسوں کی حرمت قائم رکھی، آج ان کی قربانیوں کو داغدار کیا جا رہا ہے
صرف چند نااہل، بدکردار مولویوں کی وجہ سے ؟؟؟
پرسنل لا بورڈ سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں
کیا آپ ان مجرموں کے محافظ ہیں ؟
یا مظلوموں کے مددگار ؟
کیا آپ اپنی قیادت کو چند گندے انڈوں کی وجہ سے
پوری قوم کے زوال کا سبب بننے دیں گے ؟
کیا آپ کے فیصلے روز محشر آپ کے ہاتھ مضبوط کریں گے، یا آپ کے گریبان پکڑیں گے ؟؟؟
خدارا خاموشی اب گناہ بن چکی ہے، وقت رہتے فیصلہ کیجیے
ورنہ آنے والی نسلیں آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گی،
اور شاید اللہ اور اللہ کے رسول بھی آپ کو معاف نہیں کریں گے ۔
یاد رکھیں…
اگر یہ گناہ چھپانے کا سلسلہ نہ رکا، تو ایک دن ایسا طوفان آئے گا، جو مدرسوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا، اور اللہ کی عدالت میں آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرے گا ۔۔۔۔
آخر میں وہ تاریخی واقعات ہم نے شامل کئے ہیں جو شاید آج بھُلادئے گئے ہوں
بیشک تاریخ میں کئی بار مدرسوں اور کمیٹیوں کی غیر ذمہ داری نے امت پر اثر ڈالا، لیکن ہمارے بزرگ رہنما و اکابرین خاموش نہیں رہے
حضرت امام مالکؒ اور امام احمدؒ نے اپنے عہد میں مدرسوں کی حرمت اور طلبہ کے حقوق کے لیے سخت اقدامات کیے، اور نااہل اساتذہ کو باہر نکال دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد اور مدارس میں انصاف کو یقینی بنانے کے لیے خود نگرانی کی، تاکہ کوئی ظلم نہ ہو۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ ایک قاضی کے فیصلے میں انصاف نہیں رہا تو آپ نے فوراً اسے ہٹا دیا اور کہا
"جو عدل قائم نہ رکھ سکے وہ اس منصب کے لائق نہیں”
آج مدرسہ کمیٹیاں بدکردار مہتمم اور اساتذہ کو کیوں نہیں ہٹاتیں ؟؟؟
جبکہ
حضرت علیؓ نے مسجد کے متولی سے کہا تھا
"اگر تم نے امانت میں خیانت کی تو میں تمہیں لوگوں کے سامنے رسوا کر دوں گا”
کیا آج کی کمیٹیاں اپنے متولیوں اور مہتمموں کو یہ تنبیہ دیتی ہیں ؟؟؟ جبکہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واضح فرمان ہے
"کفر کے ساتھ ریاست قائم رہ سکتی ہے، مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔”
اگر دینی اداروں میں ظلم روا رکھا جائے تو وہ ادارے برباد ہو جاتے ہیں۔
1857 کی جنگِ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے پورے ہندوستان میں دینی تعلیم کو ختم کرنے کی کوشش کی، چند علما نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دیوبند میں مدرسہ قائم کیا تاکہ دین محفوظ رہے۔
آج انہی مدرسوں کی حرمت بچانا کیا ہمارا فرض نہیں ہے ؟؟؟
سلاطین اور علماء ہمیشہ مدرسوں کی حفاظت اور بچوں کے علم و تربیت کے تحفظ کے لئے آگے آئے، یاد رہے یہ ذمہ داری آج بھی کمیٹیوں اور پرسنل لا بورڈ کی ہے۔ اور اس میں کسی بھی قسم کی لاپرواہی یا کوتاہی ناقابل معافی جرم ہے، بیشک دنیا اور آخرت دونوں جگہ آپ ہی جوابدہ ہوں گے ۔۔۔۔۔ کیونکہ
ہر رات معصوم بچوں کی چیخیں اور سسکیاں آسمان تک پہنچ کر عرشِ الہیٰ کو ہلا رہی ہیں۔
اللہ جانے کب یہ سسکیاں قہر بن کر نازل ہوجائیں، نہ صرف ظلم کرنے والوں پر، بلکہ ان پر بھی جو اس ظلم پر خاموش رہتے ہیں ….