مضامین و مقالات

گمنام مسلمان

ازقلم۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327

بھارت میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والے ادباء، شعراء، سائنسدان، مٹھوں کے سوامی، اکنامسٹ، سوشیالوجسٹ کے علاوہ ایسے لوگوں کو اہم یونیورسٹیاں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازتی ہیں جنہوں کسی خاص شعبے میں اہم خدمات انجام دی ہوں، بعض ایسے لوگوں کو بھی انکے مرنے کے بعد اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا ہے جنہوں نے سماج کے لئے کچھ کام کیاہو، صرف اعزازی ڈگریاں ہی نہیں بلکہ سرکاری اعزازات بھی دئے جاتے ہیں جسے پدمابھوشن، پدماوبھوشن، بھارت رتن وغیرہ شامل ہیں، اعزازی ڈگری ہو یا پھر ارکاری اعزازات یہ تمام چیزیں کسی بھی فردیاادارے کے وقار کو بڑھاوا دیتے ہیں، انکے خدمات کو اور صلاحیتوں کو پہچان دیتے ہیں اس لحاظ سے ان ایوارڈس یا اعزازی ڈگری کو اہمیت حاصل ہے۔ آئے دن مختلف مٹھوں، آشرموں کے گرو بھی ان ایوارڈس یا اعزازی ڈاکٹریٹ حاصل کرنے میں باقاعدہ ایک طرح سے ریزرویشن حاصل کررہے ہیں اور ہر دوسری یونیورسٹی انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ اور ہر حکومت ریاستی یا قومی ایوارڈس کے لئے مٹھوں اور آشرموں کے نمائندوں کو منتخب کررہی ہے ۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ بھارت میں خدمت خلق، تعلیم، سماجی بہبودی، بھائی چارگی کو عام کرنے کے لئے مدرسوں، خانقاہوں اور اداروں کا قیام کرنے والی قوم مسلمانوں کے علماء کو نہ تو کوئی یونیورسٹی اعزازی ڈگری نوازنے کی پہل کرتی ہے نہ ہی کوئی حکومت کسی عالم یا ادارے کو ایوارڈس دینے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلمان ایسی قوم ہے جو جب بھی کسی علاقے میں قدرتی آفات آتے ہیں یا پھر فسادات ہوتے ہیں تو خدمت خلق کے لئے دوڑے چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ۔مدد کے لئے نکل جاتے ہیں۔ باوجود اسکے مسلم علماء کو کبھی اعزازی ڈاکٹریٹ دی گئی ہےنہ ہی کوئی ایوارڈ دیا جاتا ہے ۔ البتہ مسلم علماء اور مذہبی شخصیات ایک دوسرے کی شال پوشی اور گل پوشی سے آگے کبھی نہیں جانا چاہتے، اپنوں اپنوں میں ہی اعزازات، ایوارڈس کاسلسلہ جاری رکھا جاتا ہے، بھارت میں اے پی ابوبکرمصلیار، بدرالدین اجمل، مرحوم مولانا ریاض احمدرشادی جیسے ہزاروں علماء نے اس ملک کی تعلیمی، سماجی اور انسانی حقوق کے لئے اپنی زندگیاں نچھاور کی ہیں لیکن ان شخصیات کو نہ تو حکومتوں، یونیورسٹیوں نے ایوارڈ یا اعزازی ڈاکٹریٹ کے لائق سمجھا نہ ہی مسلمانوں کے سیاسی اور ملّی قائدین نے اس جانب مطالبات کئے ہیں۔ مسلمانوں کے ملّی اور سیاسی قائدین صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے آگے آتے ہیں۔ کوئی اپنے لئے یم یل سی کی مانگ کرتاہے تو کوئی کسی بورڈ کا رکن بننے بیتاب رہتا ہے۔ کوئی امیر شریعت بننے کے لئے فیلڈنگ سجاتاہے تو کوئی شاہی امام بننے کا خواہشمند ہوتاہے، وہی دوسری قومیں اپنے مذہبی رہنماؤں کو انکی پہچان دلانے یا انکی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے کوشاں رہتی ہے ۔وہ لوگ حکومتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ انکے مذہبی پیشواؤں کو ایوارڈ دیاجائے، یونیورسٹیاں انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ دے۔ مگر مسلمان ہیں کہ اس سمت میں کوشش کرنا تو دور سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے جسکی وجہ سے مسلمانوں کے قابل علماء، سماجی تنظیمیں لاکھ کام کرکے بھی گمنام رہ جاتے ہیں۔ اب مسلمانوں کو اس جانب بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button