مضامین و مقالات

سیاسی آگہی کی کمی اور علم دین و دنیا فقدان ہی، ہم بھارتیہ مسلمانوں کے پچھڑے پن کا اصل سبب ہے

شیخ رکن الدین ندوی نظامی

یہ تحریر 9/11/2018 کے انتخابات کے موقع پر لکھی گئی تھی، فیس بک نے اس کو یاد دلادیا۔۔۔ افادۂ عام کی خاطر من و عن ارسال کی جارہی ہے۔۔۔ حالات کو پیش نظر رکھیں۔۔

شہر حیدرآباد میں بمقابل دوسری جگہوں کے مسلم ؤوٹرس کی تعداد کچھ زیادہ ہے
مگر اہلیانِ شہر میں دینی اور سیاسی بصیرت و شعور کی کمی محسوس ہوتی ہے
مختلف مکاتبِ فکر کا گہوارہ ہے رنگارنگی مکاتب فکر
کچھ سنی تو کچھ شیعہ
کسی کاتعلق سلسلۂ تصوف سے ہے تو کوئی اپنے آپ کو سلف سے وابستگی کا دعویدار!!
مگر کیا کہا جائے کہ کچھ عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں جس کی بنا پر جیل کی ہوا بھی کھانے پر مجبور ہورہے ہیں!!
تعلیمی اعتبار سے دیکھاجائے تو یہاں بڑی بڑی جامعات کی بنا رکھی گئی
جامعہ عثمانیہ
جامعہ نظامیہ
اور بعد کے دور میں
دارالعلوم حیدرآباد
سبیل السلام وغیرہ
مگر تعلیمی اور اخلاقی لحاظ سے پھر بھی کنگال!!
سیاسی عدمِ بصیرت کی اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی کہ آبادی کے تناسب سے ممبران اسمبلی کی قلت
نیز اغیار کے دم چھلے بنے بیٹھے ہیں!
اب انتخابات سر پر سوار ہیں
مسلم مسلم کے مقابل میں کھڑا ہوا ہے
ایک مسلم دوسرے مسلم کو کمزور کرنے کے تمام تر ہتھکنڈے بروئےکار لانے کی کوشش کررہاہے
جبکہ اللہ تعالی ک ارشاد ہے
لاتنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم
آپس میں نہ لڑو تم ناکام ہوگے تمکاری ہوا اکھڑ جائےگی
مگر کیا مجال کہ کوئی اس ضمن میں غور کرے!!
میں نہ جیتوں تو نکو جیتنے دو مگر اس کو تو ہرانا ہے
کی پالیسی پہ عمل پیرا-
حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
المسلم اخوالمسلم ….. لایخذلہ ولا یظلمہ ……
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے…. نہ اس کو بےیارومددگار چھوڑے اور نہ اس پر ظلم کرے
مدد ترک نہ کرنا تو دور کی بات ہے یہاں تو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوکر آپسی تنازعہ کے ذریعہ امت کو کمزور اور شکست خوردہ بنایا جارہاہے.
ریاست بھر میں عمومی طور پرشہر حیدرآباد میں خاص کر مسلم آبادی کا تناسب دیکھا جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق کم از کم چالیس ایم ایل اے مسلمانوں کے ہوسکتے ہیں اگر اس کو مبالغہ آمیز سمجھا بھی جائے تو بھی کم از کم بیس سے پچیس تو مسلم نمائندے ہوسکتے ہیں!!
مگر کیا کیا جائے ہماری سیاسی عدمِ بصیرت کا کہ
ہم خود ایک دوسرے پر تیر وتلوار سے حملہ آور ہیں
ابھی بھی وقت ہے ایثار کا قربانی کا
اپنے مفادات کو قربان کرنے کا
اپنی ذات پر ملت کے مفاد کو ترجیح دہتے ہوئےاپنی نشست کی ایثار کا
تعلیم وتعلم اور ذکر و اذکار کے حلقوں میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے میں ہی بہت بڑی فضیلت آئی ہے
تفسحوا فی المجالس فافسحوا یفسح اللہ لکم
نیز بھوکا رہ کے مہمان کو کھانا کھلانے پر مستقل تعریف کی گئی
یہاں تو پوری ملت کا اسلام کا معاملہ ہے
یہاں ایک دوسرے پر ترجیح دی جائے،ایثار کا رویہ اپنایا جائے تو پھر اللہ اس کو کیا کچھ مقام عطا کرےگا کوئی اندازہ کرسلتا ہے اس کی نوازش کا!!!!!!!

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button