
لوح محفوظ میں لکھ کر رکھ دی گئی تقدیر، جسے ٹالا نہیں جاسکتا ہے
آسمان سے عزرائیل علیہ السلام، اللہ کے حکم سے، ایک مخصوص مومن بندے کی، مخصوص خطہ ارض،مخصوص جگہ،روح قبض کرنے کے لئے نکلتے ہیں، اوپر آسمان ہی سے ایک نظر زمین پر دورآتے ہیں ۔یہ دیکھ کر انہیں تعجب ہوتا ہےکہ ،جس شخص کی روح انہیں اسکے آبائی گھر قبض کرنی ہے وہ تو کئی میل دور، کسی دوسرے گاؤں میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے مجمع میں، ان کے پند و نصائح سننے میں محو ومصروف ہے۔ اور اس وقت کے گھڑ سواری والے دور میں،اسے اپنے گھر پہنچنے میں،کئی گھنٹہ لگنے ہیں۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ حکم خداوندی پر عمل آوری کے اعتبار سے، اب سے کچھ لمحوں بعد، اس مقام سے کئی میل دور،اس کے آبائی گھر میں،انہیں اس شخص کی روح، قبض کرنی ہے اور وہ شخض کیسے اس قلیل وقفہ میں اپنے گھر پہنچ سکتا ہے
۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بنی اسرائیل کے تیسرےبادشاہ وقت نبی بھی تھے۔ ان کی دسترس جنات و ہوا پر بھی تھی وہ جم غفیر سے خطاب کررہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع تھا، دور دراز سے آئے، بے شمار مسافر بھی، آپ کو سننے حاضر مجمع تھے،کہ آچانک اس شخص کے دل میں عجیب بے چینی پیدا ہونے لگتی ہے اسے اپنا گھر اپنے بیوی یاد آنے لگتے ہیں، وہ بے چین و سراسیمہ سیدھا مجمع کو چیرتا ہوا حضرت سلیمان علیہ کے پاس پہنچتا ہے اور اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے درخواست کرتا ہے کہ آپ تو ہواؤں پر قدرت رکھتے ہیں، مجھے کسی بھی طرح اپنے گھر پہنچادیجئے ، حضرت سلیمان علیہ السلام نبی یونے کے ناطے معاملہ فہمی کا ادراک رکھتے ہوئے، اسے مجمع سے ہٹ کے کچھ دور کھڑے ہونے کو کہتے ہیں اور ہوا کے جھونکے کو برضاء رب دو جہاں، اسے اسکی کے گھر پہنچانے کا حکم دیتے ہیں۔ آنا”فانا” ہواؤں کے دوش پر، وہ شخص اپنے گھر پہنچتا ہے۔ اپنی آل اولاد سے ملتا ہے تب حضرت عزائل علیہ السلام بھی وہاں پہنچتے ہیں اور وقت متعین اور جائے متعین، اس شخص کی روح قبض کرکے، اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں
۔ ویسے اس واقعہ پر ہزاروں سال بیت چکے ہیں۔لیکن خدائی معاملات آج بھی ویسے ہی تاقیامت آنے والی، انسانیت کے لئے لکھ کر رکھ دئیے گئے، لوح محفوظ فیصلہ کے تحت، سب کچھ خود بخود ہوتے چلے آتے ہیں۔ ہم انسانوں کو لگتا ہے ایسا اگر نہ ہوتا تو ویسا نہ ہوتا! لیکن تقدیر کے فیصلوں کو کون ٹال سکا ہے؟ جس میں ہمیں کامیابی ملے۔
ہماری بھتیجی کے تین بیٹیوں کے درمیان جنمے اکلوتے فرزند مولوی نقیب بن نورالامین کاظمی ندوی ابتداء ہی جامعہ اسلامیہ بھٹکلی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے،عالمیت بعد فضیلت کی تعلیم حاصل کرنے ،اپنے ساتھیوں کے ساتھ داخل ندوةالعلماء لکھنؤ زیر تعلیم تھے۔
کوئی خاص سقم نہ تھا بچپن میں ہوئے حادثہ،سر چوٹ لگنے کے بعد، مکمل صحت یاب ہوچکے تھے۔ البتہ وقفہ وقفہ سے سردرد کی شکایت تھی جسے افاقہ درد کی گولیوں کے بعد،صرف نظر کیا کرتے تھے۔ اسکول کی چھٹیوں میں کچھ ساتھی وطن واپس آئے تھے، کچھ ساتھئوں کے اصرار پر وہ انکے ساتھ شملہ پہاڑی پر سیر کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اونچی پہاڑی پر ٹھنڈ زیادتی اور آکسیجن کی کمی سے، انہیں سردرد شدید احساس ہونے لگا ڈاکٹر سے رجوع ہوئے تب تک دیر ہوچکی تھی ۔
طب جدید نے دماغ کی شریانوں میں ورم بتایا وہاں سے چنڈی گڑھ شفاخانہ میں داخل علاج کرائے گئے ۔ خبر ملتے ہی بھٹکل سے والدین چندی گڑھ پہنچے انہیں فوری طور وہاں سے دہلی اچھے ہاسپٹل میں علاج کروانے کی سعی کی گئی ڈاکٹروں کے امید افزاء جواب سے محرومی باعث انہیں وطن عزیز کے قریب امراض شفایابی کا مرکز مینگلور منتقل کرنا طہ پایا۔ بذریعہ ہوائی جہاز لانا ممکن نہ تھا اس لئے براستہ ایمبولینس دہلی سے مینگلور کے لئے روانہ ہوئے،
آج بروز سنیچر شہر حیدر آباد سے 80 کلومیٹر پہلے ،دوپہر کے دو بجے سے کچھ لحظہ قبل، عزیزم مولوی نقیب کاظمی ندوی کو، اس دنیا میں آخری سانس لینا لوح محفوظ میں لکھا جاچکا تھا، سو وہ مقررہ وقت پر، مقررہ جگہ پر، پہنچتے ہی ،لوح محفوظ میں لکھ کر رکھ دی گئی تقدیر، جسے ٹالا نہیں جا سکتا، سو وہ مقررہ وقت پر، مقررہ جگہ پر پہنچتے ہی، حصرت عزائیل علیہ کے ہمراہ،مولوی نقیب کاظمی ندوی کی روح،اپنے ساتھ سفر کررہے والد محترم کو سوگوار چھوڑ، قصر عنصری کی طرف پرواز کر چلے گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون
دنیا چاہے کتنی ہی جدت پسندانہ طور ترقی کرلے لیکن موت و زیست کے معاملہ میں، تقدیر کے فیصلوں کے آگے، مجبور و بے بس ہے۔ دکھنے میں تو تو ہمیں لگتا ہے، ایسا ہوتا تو ویسا نہ ہوتا! لیکن اس دنیا میں آنے والا ہر انسان اپنی رزق و زندگی کے لمحات لکھواکے لے آتا ہے۔ نہ ایک لمحہ آگے پیچھے ہوسکتا ہے اور جائے موت کو بدلا جاسکتا ہے۔
وہ تو ابھی عفوان شباب کو پہنچا ہی تھا عالم دین تھا، داعی دیں بننے کی جستجو میں تھا، امید واثق ہے وہ اپنے رب رحیم و غفار دو جہاں کے فضل و کرم سے، جنت کے باد نسیم کے جھونکوں سے عالم برزخ میں لطف اندوز ہورہا ہوگا۔ اکلوتے فرزند کے والدین پر جو غموں کا پہآڑ ٹوٹا ہے رب دو جہاں سے دعا ہے کہ انہیں صبر و استقامت نصیب کرے اور انکے اس صبر کو انکی باقی ماندہ زندگانی و اخروی زندگی کی کامیابی و شادمانی کا باعث بنادے، اور ہم تمام مسلمین مومنین کو خاتمہ بالخیر ہوتے اپنے رب کے ہاس سرخرو ہو، لوٹنے والوں میں سے بنائے آمین فثم آمین